ترقی پذیر ممالک میں ریاستی تدریسی اداروں اور حکومت کا کردار ناگزیر ہوتا ہے۔ شہریوں کی اکثریت کے لئے، جن کے پاس معلومات تک مناسب رسائی نہیں ہوتی‘ بے روزگاری جیسے پیچیدہ محرکات سے نمٹنا اور وہ بھی بنا کسی بیرونی مدد چیلنج ہوتا ہے۔ طالب علموں کی صلاحیتوں اور قابلیت کا اندازہ کم عمری سے ہی ان کی تعلیم میں شامل کیا جانا چاہئے اور اِس سلسلے میں صرف مشاورت ناکافی رہتی ہے جس کے لئے تعلیمی نظام میں مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس صورتحال میں روایتی طریقوں کو زیادہ انٹرایکٹو، بنانے یعنی تبدیل کرنا ہوتا ہے جس سے علمی صلاحیتوں اور عملی مہارتوں کو فروغ ملتا ہے۔ ویڈیوز، سیمولیشنز، اے آر، وی آر اور دیگر پراجیکٹس پر مبنی تربیت کے ذریعے طلبہ کو مشغول (مصروف) رکھا جا سکتا ہے جس سے اُنہیں حقیقی دنیا کے سیاق و سباق سمجھنے اور معلومات برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔نوجوان طالب علموں کے لئے، ابتدائی قابلیت کی تشخیص اور ذاتی سیکھنے کی طاقت اپنی جگہ اہم ہوتی ہے جبکہ دس سے پندرہ برس کی عمر کے طلبہ مختلف شعبوں میں ترقی کے مواقع تلاش کرسکتے ہیں اور اپنی دلچسپیوں کے مطابق رہنمائی مل سکتی ہے۔ سب سے اہم ضرورت اِس بات کی ہے کہ طلبہ میں تنقیدی سوچ کا فروغ کیا جائے۔ اُن کے نکتہئ نظر پر تنقیدی سوچ کا غلبہ ہونا چاہئے اور اِسی کے مطابق اپنی مہارتوں میں اضافہ کریں۔ اگر طلبہ ایسا کر لیں تو وہ اپنے آپ کو مستقبل کی ملازمتی مارکیٹ کے لئے بہتر طور پر تیار کر سکتے ہیں اور اِس سے بہت سی معیشتوں میں پایا جانے والا مہارت کا فرق بھی پُر کیا جا سکے گا۔ اس پس منظر میں، حکومتوں کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ اِن اہم مسائل کو حل کریں اور اِس بات کو یقینی بنائیں کہ بنیادی حقوق کی فراہمی میں زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کریں۔ جس میں زندگی کے تحفظ کا حق، کام کا حق، تعلیم اور مساوی مواقعوں کا حق بھی شامل ہے۔ طلبہ کو جامع رہنمائی فراہم کرکے، ہنرمندی کو فروغ دے کر، اور نظام کی رکاوٹیں دور کرکے، حکومتیں سماجی و اقتصادی عدم مساوات کے منفی اثرات کم کر سکتی ہیں۔ حکومت کی صرف یہی ذمہ داری نہیں ہوتی کہ وہ انگریزی میں پالیسیاں بنائے، اور پھر اِن پالیسیوں کو دفتر کی الماریوں یا ویب سائٹوں پر موجودہ ذخیرے میں شامل کر دے بلکہ اِسے ایک جامع نظام قائم کرنے کے لئے مداخلت کی ضرورت ہوتی ہے جہاں پسماندہ برادریوں کو جہالت، غربت اور استحصال کے چکر سے آزاد ہونے کے لئے رہنمائی فراہم کی جائے اُور انہیں زیادہ بااختیار بھی بنایا جائے۔روزگار کا مستقبل تیز رفتار تکنیکی ترقی اور عالمی تبدیلیوں سے متاثر ہوتا ہے، جو ترقی پذیر ممالک میں پسماندہ برادریوں کے لئے مواقع اور چیلنجز کا مجموعہ ہوتا ہے۔ توانائی کے متبادل ذرائع، مصنوعی ذہانت پر مبنی بائیو ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل خدمات جیسے ابھرتے ہوئے شعبے روزگار کی منڈی کو نئی شکل دے رہے ہیں جن میں مداخلت کے بغیر‘ عدم مساوات کی موجودہ صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ حکومتوں کو آٹومیشن، گلوبلائزیشن اور بڑھتی ہوئی مہارت کے تقاضوں جیسے رجحانات کے بارے میں واضح بصیرت فراہم کرنی چاہئے۔ گرین انرجی اور مصنوعی ذہانت جیسے اعلی ترقی والے شعبوں کے بارے میں معلومات کے فروغ باخبر فیصلے کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور انہیں بے روزگاری اور استحصال سے بچنے کے لئے بااختیار بھی بنایا جا سکتا ہے۔تعلیم اور ہنر مندی کی ترقی کے لئے اسکالرشپس تک رسائی اور فنڈنگ پسماندہ روزگار کے متلاشیوں کو بااختیار بنانے میں سنگ بنیاد جیسی اہمیت رکھتی ہے۔ وسائل تک مساوی رسائی ترجیح بنا کر بالآخر معاشی ترقی اور معاشرتی مساوات کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ سمجھنا ہوگا کہ روزگار کے چیلنجوں سے نمٹنے کے ذریعے، حکومتیں زیادہ بہتر افرادی قوت پیدا کر سکتی ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ملازمتی مواقعوں کے بارے میں واضح معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اسکالرشپس اور ہنرمندی کی ترقی تک رسائی ہونی چاہئے اور اِس حوالے سے حائل مالی رکاوٹیں بھی دور کرنے کے لئے اقدامات ضروری ہیں۔ یہ کوششیں روزگار میں اضافے کے ساتھ‘ معیشتوں کو مضبوط بنانے اور نظام میں موجود ناانصافی اور استحصال کا مقابلہ کرتے ہوئے پائیدار ترقی، سماجی مساوات اور بامعنی روزگار کے فروغ کا باعث بن سکتی ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر مرتضیٰ کھوڑو۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
بیرون ملک تعلیم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی اجلاس
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غیر قانونی تارکین وطن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمایہ دارانہ نظام: حیات و نجات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بہتر اساتذہ برائے مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ڈیجیٹل میدان جنگ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ٹرمپ اور پاکستان
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی اور خواتین
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کرپٹو کرنسی انقلاب
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
امریکی پالیسی کا تضاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام