بھارت کی آبی جارحیت

بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریاؤں کا پانی روکنا ’آبی جارحیت‘ ہے جو بھارت کے بانی نظریات اور فلسفے کی بھی توہین ہے۔ پاکستان کے دریاؤں کی خاموشی گواہی دے رہی ہے کہ صدیوں کی تہذیبوں، عظیم سلطنتوں کے عروج و زوال اور خون کی روشنائی سے کھینچی گئی سرحدوں کی کوئی وقعت نہیں۔ دریاؤں کی یہ خاموشی اذیت اور ایک ایسی خیانت ہے طاقت کے نشے اور زعم میں سرشار ہو بھارت کی طرف سے ہو رہی ہے اور یہ دوسروں کی آزادی پر ضرب لگا رہا ہے۔یہ وہی بھارت ہے جس کا تعارف کبھی گاندھی کے عدم تشدد اور نہرو کے سیکولرزم سے کیا جاتا تھا۔ لیکن آج، اسی بھارت نے وہ روپ دھار لیا ہے، جس سے کبھی آزادی حاصل کرنے کے لئے قربانیاں دی تھیں۔ اب وہ ملک جو کبھی نوآبادیاتی ظلم کے خلاف کھڑا ہوا تھا، خود ایک نئے سامراج کا پرچارک بن چکا ہے۔ سات مئی کی صبح، بھارت نے پاکستانی سرزمین پر آپریشن سندور کے نام سے حملہ کیا۔ شہری آبادی اور مساجد پر میزائل داغے گئے۔ الزام تھا کہ یہ جوابی کاروائی تھی پہلگام حملے پر، جس میں مبینہ طور پر کشمیری جنگجو ملوث تھے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے ملوث ہونے سے متعلق کوئی ٹھوس ثبوت پیش کیا گیا؟ بھارت نے صرف سیاسی مفروضے کی بنیاد پر الزام لگایا اور یوں لگتا ہے کہ بھارت میں انتخابات میں کامیابی کے لئے پاکستان پر الزام تراشیاں معمول بن گئی ہیں۔ بھارت کی جانب سے پاکستان پر صرف میزائلوں سے حملہ نہیں گیا بلکہ یہ ایک علامتی اعلان جنگ بھی تھا کہ بھارت اب جواب دہی نہیں چاہتا، صرف تماشائیوں کی داد چاہتا ہے۔ نئی دہلی نے اب وہی کردار اپنا لیا ہے جو کسی زمانے میں وائسرائے ہند کا تھا یعنی ازخود فیصلہ کرنا، نقشہ کھینچنا اور اپنی سوچ کے مخالفت یا مزاحمت کرنے والوں کو طاقت سے خاموش کر دینا۔چھ مئی کو بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا تھا۔ وہی معاہدہ جو 1960ء سے اب تک تین جنگوں کے باوجود قائم رہا۔ یہ ایک بین الاقوامی مثال تھی کہ دشمن ممالک بھی تعاون کر سکتے ہیں، لیکن اب یہ بھی بھارت کی جارحیت کی نذر ہو چکا ہے۔ دریاؤں کو ہتھیار بنا کر پانی کی فراہمی کو روکنے کی دھمکی دراصل ایک نئی قسم کی جنگ ہے۔ وہ جنگ ہے جس میں بندوقیں نہیں بلکہ پانی روکنے کی صورت زندگی چھینی جاتی ہے۔ یہ عمل نہ صرف ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک ایسے جنوبی ایشیا کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان ہے جہاں پانی پہلے ہی کم ہوتا جا رہا ہے۔ کیا بین الاقوامی برادری اس خاموش قتل پر خاموش ہی رہے گی؟ آج بھارت کی زبان وہ نہیں رہی جو نہرو یا ٹیگور بولا کرتے تھے۔ اب اختلاف ’غداری‘ ہے، سوال کمزوری، اور پاکستان دشمنی حب الوطنی کے استعارے ہیں۔ قابل افسوس ہے کہ بھارت اب ایک ایسا ملک بن چکا ہے جہاں آئینی اقدار کو قومی مفاد کی دیوار سے ٹکرا کر توڑا جا رہا ہے۔ یہ وہی ملک ہے جس نے کبھی تقسیم کو المیہ کہا تھا مگر اب اسی تقسیم کو ووٹ بینک بنانے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ اِس پوری صورتحال کا افسوسناک اور تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا بھارتی جارحیت پر خاموش ہے۔ اقوام متحدہ، جو ہر عالمی تنازعے میں قراردادیں منظور کرتی ہے، یہاں بے بس دکھائی دیتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں سرگوشیوں سے آگے نہیں بڑھ رہیں۔ مغرب، جس نے امن، انصاف اور قانون کی دہائی دی تھی، آج بھارت کی منڈیوں اور ٹیکنالوجی کی چمک دمک کی وجہ سے اندھا ہو چکا ہے۔ پاکستان کا طرزِ عمل محتاط ہے۔ پاکستان ہر ظلم کا جواب امن سے دینا چاہتا ہے جو گاندھی کا فلسفہ اور حقیقی میراث ہے لیکن بھارت اپنے اجداد کے قول و فعل اور درس کو فراموش کئے ہوئے ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ایم زمان خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)