تعلیم و ترقی

پاکستان کی تقریبا ساٹھ فیصد آبادی عملی طور پر ناخواندہ ہے کیونکہ خواندگی سے متعلق جائزوں (سرویز) میں اُن لوگوں کو بھی پڑھا لکھا شمار کر لیا جاتا ہے جو صرف اپنا نام لکھ سکتے ہیں حالانکہ اپنا نام لکھنا کسی بھی طرح خواندگی کا معیار قرار نہیں دیا جا سکتا اور دنیا خواندگی کے حوالے سے بہت آگے نکل چکی ہے! کمپیوٹر اور ڈیجیٹل خواندگی کو کم سے کم معیار مقرر کیا جائے تو پاکستان میں ”ناخواندگی“ کی اصل شرح خطرناک حد تک زیادہ ہو گی شاید ممکنہ طور پر 80فیصد سے بھی زیادہ لوگ کمپیوٹرز کے کام کاج بارے علم نہیں رکھتے۔ آج کی ڈیجیٹل معیشت میں، ترقی کے لئے کمپیوٹر خواندگی ضروری ہے کیونکہ آٹومیشن، مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا پر مبنی فیصلہ سازی پر انحصار کیا جاتا ہے اور صنعتوں سے لے کر عام کاروبار تک ڈیجیٹل مہارت کے بغیر افراد کو روزگار ملنا مشکل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں افرادی قوت کی بڑی تعداد ”معاشی پسماندگی“ کا شکار ہے اور یہ پہلو بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ کمپیوٹر خواندگی کو ترجیح دینے والے ممالک دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ جمہوریت، آمریت یا بادشاہت جیسے سیاسی نظاموں سے قطع نظر کوئی بھی ملک اپنے لوگوں کو تعلیم دیئے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ نوبل انعام یافتہ رابرٹ سولو کے مطابق، 1909ء اور 1949ء کے درمیان، جب امریکی معیشت نے فی گھنٹہ کام کرنے کو معیار مقرر کیا اور اِس معیار کی وجہ سے امریکہ کی مجموعی پیداوار میں دوگنا اضافہ ہوا تو اس اضافے کا 88فیصد تکنیکی ترقی کی وجہ سے تھا۔ ایڈورڈ ڈینسن نے اندازہ لگایا کہ 1929ء اور 1982ء کے درمیان، امریکی اقتصادی ترقی کا تقریبا 52فیصد حصہ علوم میں پیش رفت کی وجہ سے تھا۔  صنعتی انقلاب (اٹھارہویں صدی کے اواخر  میں آیا) نے معیشتوں اور معاشروں کو تبدیل کر دیا، جس نے خواندہ افرادی قوت کی طلب کو بڑھایا۔ برطانیہ، جرمنی اور امریکہ نے 19ویں صدی میں لازمی تعلیم متعارف کرائی، جس سے بیسویں صدی کے اوائل تک خواندگی کی شرح 90فیصد سے تجاوز کر گئی۔ اِس پوری صورتحال کے معاشی اثرات انتہائی حیرت انگیز تھے۔ برطانیہ کی جی ڈی پی پچاس برس (1750ء سے 1800ء) میں دوگنی ہوئی اور اُنیسویں صدی میں یہ پانچ گنا بڑھ گئی۔ جاپان نے 1872ء میں شہنشاہ میجی کے دور میں گاکوسی تعلیمی نظام نافذ کیا۔ 1900ء تک 80فیصد خواندگی حاصل کی‘ جس سے تیزی سے صنعت کاری کو فروغ ملا۔ اس کے برعکس لاطینی امریکی اور افریقی ممالک سیاسی عدم استحکام اور نوآبادیاتی دور میں تعلیم پر پابندیوں کی وجہ سے پیچھے رہ گئے۔ 1900ء تک بہت سے افریقی ممالک میں خواندگی بیس فیصد سے بھی کم رہی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں ترقی یافتہ ممالک میں پبلک اسکولنگ میں نمایاں اضافہ ہوا، جس نے معاشی اور تکنیکی ترقی کو آگے بڑھایا۔ 1950ء تک مغربی یورپ میں خواندگی کی شرح 95فیصد سے تجاوز کر گئی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یونیسکو جیسے عالمی اداروں نے خواندگی کی مہمات کو نئے آزاد ہونے والے ممالک میں فروغ دیا تاہم محدود وسائل نے ترقی پذیر ممالک کی ترقی کو محدود رکھا۔ براعظم ایشیا میں کئی ممالک نے اپنی معیشتوں کو جدید بنانے کے لئے بڑے پیمانے پر خواندگی کے پروگرام شروع کئے۔ جن میں قابل ذکر ماؤ زے تنگ کی قیادت میں چین کی حکومت کی جانب سے چلائی جانے والی مہمات تھیں جن کی وجہ سے چین کی شرح خواندگی میں نمایاں اضافہ ہوا جو 1982ء تک 66فیصد تک پہنچ گئی۔ اسی طرح، 1988ء میں شروع کئے گئے بھارت کے قومی خواندگی مشن نے بالغ خواندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی، جس میں شرح خواندگی کو 1991ء میں 52 فیصد سے بڑھا کر 2011ء تک 74 فیصد سے زیادہ کر دیا گیا۔ جاپان اور جنوبی کوریا میں تعلیمی نظام کی کامیابی نے ظاہر کیا کہ کس طرح خواندگی صنعت کاری کو فروغ دے سکتی ہے، جس سے تیزی سے نمایاں معاشی تبدیلی (بہتری) آسکتی ہے۔ جمہوریت اور تعلیم کے درمیان تعلق پیچیدہ نوعیت کا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جمہوریت جامع پالیسیوں کے ذریعے خواندگی کو فروغ دیتی ہے جبکہ ایک طبقے کی رائے ہے کہ تعلیم جمہوری شرکت کو فروغ دیتی ہے۔ چین اور ویت نام نے ظاہر کیا ہے کہ اعلیٰ خواندگی سیاسی لبرلائزیشن کے بغیر ہوسکتی ہے۔ لاطینی امریکہ کو مساوی اقتصادی ترقی کے لئے تعلیم کے استعمال میں چیلنجوں کا سامنا ہے۔ میکسیکو (95فیصد خواندگی) اور برازیل (93 فیصد) اعلی تعلیم کے شعبوں کو وسعت دینے والے ممالک ہیں لیکن عدم مساوات اور بدعنوانی کی وجہ سے اِن ممالک میں ترقی نہیں ہو رہی۔ اِسی طرح ارجنٹائن اور چلی کی سرکاری جامعات کو بھی مالی وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ تعلیم دو صدیوں سے زیادہ عرصے سے معاشی اور سماجی ترقی کی بنیاد رہی ہے۔ آج کی علمی معیشت کو زندگی بھر سیکھنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت اور تعلیم کے درمیان پیچیدہ تعلق مختلف خطوں میں مختلف نظر آتا ہے چونکہ ٹیکنالوجی اور گلوبلائزیشن معیشتوں کو نئی شکل دے رہے ہیں‘ اِس لئے جدت‘ مساوات اور سیاسی شمولیت کو فروغ دینے میں بھی تعلیم کا کردار سب سے اہم ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر یوسف نذر۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)