فضائی آلودگی ایک بے مثال ماحولیاتی آفت ہے جس نے پاکستان کے بہت سے شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے‘ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ تیزی سے بڑھتا ہوا عالمی مسئلہ بھی ہے کیونکہ کئی ایک ممالک کا شمار آلودہ ممالک میں ہو رہا ہے اور اِس کا مطلب یہ ہے کہ ’ہوا کے خراب معیار‘ کی وجہ سے شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ لاہور صرف پاکستان ہی کا نہیں بلکہ فضائی آلودگی کی وجہ سے دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا جا چکا ہے۔ ان ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے حکومتی ادارے معنی خیز کاروائی نہیں کر رہے جس کی وجہ سے متاثرہ افراد کو مسلسل آلودہ ماحول، بنا تطہیر سیوریج اور بڑھتے ہوئے ماحولیاتی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حالیہ اعداد و شمار نے پاکستان کو دنیا کے تین آلودہ ترین ممالک میں شامل کرنے کی تصدیق کی ہے جبکہ کچھ رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اب یہ دوسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ لاہور، فیصل آباد اور پشاور جیسے شہروں میں ایکوآئی زیادہ تر وقت 300 سے اوپر چلا جاتا ہے، جو خطرناک زمرے میں آتا ہے اور سانس، دل اور قبل از وقت اموات کا سبب بن رہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے مقرر کردہ محفوظ فضائی معیار پر پاکستان کا کوئی بھی شہر پورا نہیں اُترتا۔ لاہور، جو ثقافتی اور معاشی طور پر پاکستان کے دل کی دھڑکن ہے، حالیہ برسوں میں زہریلے سموگ کا مرکز بن گیا ہے۔ یہ عام طور پر موسم سرما میں ہوتا ہے جب فصلوں کو جلانے، گاڑیوں اور صنعتوں سے نکلنے والا اخراج آہستہ آہستہ شہر کے اوپر زہریلی ہوا کو بادل کی صورت پھیلا دیتا ہے۔ اس کے جواب میں حکومت اسکول اور دفاتر بند کرتی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس آلودگی کو غیر مؤثر بنانے اور بحران کو جڑوں سے ختم کرنے کے لئے بہت ہی کم کام کرتی ہے۔ جہاں فضائی آلودگی شہ سرخیوں میں ہے وہیں پاکستان کو آبی آلودگی کی وجہ سے مزید سنگین صورتحال کا سامنا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی سے باہر روزانہ 700 ملین گیلن گندا پانی براہ راست بحیرہ عرب میں ڈالا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زیادہ تر صنعتی فضلہ اور گھریلو سیوریج بھی سمندر میں پھینکا جاتا ہے جو ساحلی علاقوں کو کم و بیش آلودگی کی دلدل میں تبدیل کر چکا ہے۔ کراچی کے کچھ علاقوں میں سمندری ماحولیاتی نظام تباہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ وہ تفریحی مقامات جو کبھی ویک اینڈ کے لئے مختص تھے اب صحت مند نہیں رہے کیونکہ وہاں کچرا پھینکنا معمول بن چکا ہے اِس پورے منظرنامے میں ہمارے پالیسی ساز خاموش ہیں جبکہ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ میں خاطر خواہ سرمایہ کاری نہیں کی گئی جو دہائیوں پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔ چھوٹے بڑے شہروں میں کا نکاسیئ آب کا نظام آبادی بڑھنے کی وجہ سے دباؤ میں ہے اور یہ سب نہ صرف ماحولیاتی تباہی کی طرف اشارہ ہے بلکہ صحت کے سنگین مضمرات کی بھی عکاسی کر رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ساحلی آبادیوں میں ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور جلد کے انفیکشن جیسی وبائیں تیزی سے پھیلنے لگی ہیں۔ اس پورے معاملے میں‘ معاشی لاگت‘ چونکا دینے کی حد تک زیادہ ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بیماریوں، معاشی رکاوٹوں اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے، پاکستان پر روزانہ تقریباً ایک ارب روپے کا ماحولیاتی قرض چڑھ رہا ہے۔ یہ رقم اس سے کہیں زیادہ ہے جو پاکستان ترجیحی سماجی شعبوں میں سرمایہ کاری پر خرچ کرتا ہے لیکن اس مالی بوجھ کو کم کرنے کے لئے کوئی واضح پالیسی روڈ میپ نہیں ہے۔ ہر دن پہلے سے زیادہ گھمبیر ہوتا ”ماحولیاتی بحران“ ملک کے معاشی مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے۔ آلودہ ہوا کی وجہ سے کئی شعبوں کی پیداواری صلاحیت کم ہو رہی ہے۔ کئی ایسے علاقے ہیں جہاں پانی کی قلت کے باعث سیاحت متاثر ہے اور پاکستان معاشی ترقی کو برقرار رکھنے کی اپنی صلاحیت کھو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اِس صورتحال میں حکومتی اداروں کو کیا کرنا چاہئے؟ اگر ترقیاتی عمل میں ماحولیاتی اثرات کا جائزہ ترجیح بنایا جائے اور ماضی کی غلطیوں کی درست کرنے کے لئے ترقیاتی منصوبوں کی اصلاح (تبدیلی) کی جائے تو اِس سے بہتری آ سکتی ہے۔ دوسرا اہم اصلاح طلب اقدام عوامی شعور کی سطح میں اضافہ کرنا ہے۔ یہ بہت سی غلط پالیسیوں اور منظم غفلت کا ثبوت اور جمع شدہ کام ہے۔ حکومت کو جو کام کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں: ایک، ماحولیاتی ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے۔ اس طرح کا اعلان نہ صرف صورتحال کی سنگینی کو سامنے لانے بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر آلودگی کے خلاف جنگ کے لئے وسائل کو متحرک کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ دوسرا ہوا کے معیار کی بہتری میں سرمایہ کاری کی جائے لہٰذا گاڑیوں سے دھویں کے اخراج کے معیار کے ساتھ توانائی کے متبادل ماحول دوست طریقوں کو قومی توانائی کا حصہ بنایا جائے اور اِن کے حل کے لئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ تیسرا، سیوریج ٹریٹمنٹ کے لئے منصوبے تیار کئے جائیں۔ ملک کے بڑے شہروں میں سیوریج (گندے پانی) کے مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے بڑے پلانٹس ٹریٹمنٹ اور صنعتی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے قوانین میں سختی لانی ہو گی۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مسعود لوہار۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
چوتھا اقدام ماحولیاتی قوانین و قواعد کو سختی سے نافذ کرنے کی ہے۔ بہت سی صنعتیں اس وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کر رہی ہیں کیونکہ اُنہیں سے نرمی کا معاملہ کیا جا رہا ہے اگر ماحول کو نقصان پہنچانے والوں کو بھاری جرمانے کئے جائیں اور ماحولیاتی تحفظ کے قوانین و قواعد کو سختی سے نفاذ کیا جائے تو حسب ضرورت تبدیلی آ سکتی ہے۔۔۔۔