امریکی ہتھیار: پاکستان کیلئے مسئلہ

اگست دوہزار اکیس میں افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخل کے بعد پاکستان کے لئے اہم سکیورٹی خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ بین الاقوامی افواج کی جانب سے نادانستہ طور پر چھوڑے گئے ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ اب غیر ریاستی عناصر اور عسکریت پسند گروہوں کے قبضے میں آ چکا ہے۔ اس سے نہ صرف افغانستان کے اندر باغیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے بلکہ پاکستان کی خودمختاری کے لئے بھی براہ راست خطرہ پیدا ہوا ہے۔ اس لاپرواہی کے مضمرات حالیہ سرحد پار تنازعات میں اضافے سے واضح ہیں، خاص طور پر طورخم سرحد پر، جہاں پاکستانی اور افغان افواج کے درمیان حالیہ جھڑپوں نے خطے میں کشیدگی میں اضافہ کیا ہے۔ امریکہ اور نیٹو افواج کی جانب سے چھوڑے گئے اسلحے کا اصل مقصد افغان نیشنل آرمی (اے این اے)اور افغان سکیورٹی فورسز کو مضبوط کرنا تھا تاہم افغان طالبان کی طرف سے کابل پر تیزی سے قبضے کے بعد، یہ ہتھیار ان کے ہاتھوں میں چلے گئے اور بعد میں ان کا استعمال دیگر سرگرم عسکریت پسند دھڑے کرنے لگے ہیں۔ اس اسلحہ میں جدید رائفلیں، نائٹ ویژن آلات، راکٹ لانچرز، بکتر بند گاڑیاں اور یہاں تک کہ جدید قسم کے ڈرونز طیارے بھی شامل ہیں اور اب یہ سب سرحدی علاقوں کو غیر مستحکم کرنے اور پاکستانی سکیورٹی فورسز اور شہریوں کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے ان جدید ہتھیاروں کے بلا روک ٹوک پھیلاؤ کے بارے میں مسلسل تشویش کا اظہار کیا ہے۔ خفیہ ذرائع (انٹیلی جنس جائزوں)سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کی جانب سے متعدد ہتھیار پاکستانی فوجی تنصیبات، سرحدی چوکیوں اور شہری اہداف پر حملوں میں استعمال کئے جا رہے ہیں۔ سرحد کی تعمیر کے تنازع پر شروع ہونے والے پچیس دن کے تنازعہ کے بعد طورخم سرحد دوبارہ کھل گئی ہے۔ طورخم بارڈر کراسنگ پر کشیدگی سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور عسکریت پسند گروہوں کے ہاتھوں میں جدید ہتھیاروں کے بلا روک ٹوک پھیلاؤ کا نتیجہ ہے۔ پاکستانی اور افغان افواج دونوں نے ایک دوسرے پر دشمنی بھڑکانے کا الزام عائد کیا اور کشیدگی کم کرنے کے لئے بار بار کی جانے والی سفارتی کوششیں بھی کسی نہ کسی مرحلے پر ناکام ثابت ہوئیں۔ طورخم پاکستان اور افغانستان کے درمیان اہم سرحدی گزرگاہ ہے، جس کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور نقل و حرکت ہوتی ہے۔ حالیہ تنازعے کے دوران دونوں فریقوں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں کافی جانی نقصان ہوا اور اہم انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا۔ ان جھڑپوں نے صرف خوف اور غیر یقینی کا ماحول پیدا کیا ہے، جس سے نہ صرف سیکورٹی اہلکار بلکہ شہری، تاجر اور مسافر بھی متاثر ہوئے ہیں۔افغانستان میں امریکی ہتھیاروں کے بے ضابطہ بہا نے خیبر پختونخوا کے اندر دہشت گردی کی سرگرمیوں میں خطرناک حد تک اضافے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عسکریت پسند تنظیمیں، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)نے ان ہتھیاروں کو پاکستانی سکیورٹی فورسز اور شہریوں کے خلاف مہلک حملے کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس دوہزارپچیس کے مطابق پاکستان عسکریت پسندوں کے تشدد کے اثرات کے لحاظ سے برکینا فاسو اور اس سے پہلے شام کے بعد دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے۔ انڈیکس میں مزید نشاندہی کی گئی ہے کہ کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی جو ریاست اور اس کے شہریوں کے خلاف پرتشدد مہم چلا رہی ہے، عالمی سطح پر چار مہلک ترین دہشت گرد گروہوں میں شامل ہے۔ سال 2023 میں ریکارڈ کئے گئے 517 دہشت گرد حملوں کے مقابلے میں، گزشتہ سال کل 1990 دہشت گردی کے واقعات پیش آئے، جن میں سے تقریباً نصف کا تعلق ٹی ٹی پی سے تھا۔ انڈیکس کے نتائج سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان وہ علاقے ہیں جو سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جہاں ان میں سے چھیانوے فیصد حملے ہوئے ہیں۔ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گرد گروہ اب پہلے سے کہیں زیادہ بہتر طور پر ہتھیاروں سے لیس ہیں، جو پاکستان کے سیکورٹی کے لئے زبردست چیلنج ہیں۔طورخم کے تنازعے سے تجارتی راستوں میں خلل پڑا، افراط زر کا دبا بڑھا اور سرحد کے دونوں جانب اہم اشیاء کی قلت پیدا ہوئی۔ تجارت پر سرحدی برادریوں کے انحصار کو دیکھتے ہوئے، اس طرح کے تنازعات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشی گرفت پہلے سے ہی غیر یقینی سے دوچار خطے میں غربت اور بدامنی میں اضافہ کر رہی ہے۔ پاکستان کے لئے یہ صورتحال دوہرا چیلنج ہے کہ ایک تو اِسے طورخم کے بحران اور دوسرا افغانستان میں امریکی اور نیٹو ہتھیاروں سے پیدا ہونے والے سکیورٹی مضمرات سے نمٹنا ہے۔ باغی گروہوں کے درمیان ان جدید ہتھیاروں کی غیر منظم ترسیل پاکستان کے داخلی استحکام اور علاقائی سلامتی کے لئے طویل مدتی خطرہ ہے، خاص طور پر ٹی ٹی پی جیسے دھڑوں کی اِس سے حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ اسلام آباد نے بین الاقوامی برادری خاص طور پر امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان سے ان کے اچانک انخلا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سلامتی کے خدشات کو دور کریں تاہم ان خدشات کو بڑی حد تک تسلیم نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے پاکستان کو اپنی مغربی سرحد پر سرگرم مسلح عسکریت پسند گروہوں کا مقابلہ کرنا پڑا ہے اگرچہ فوجی ردعمل عارضی ڈیٹرنس پیش کرسکتا ہے لیکن ممالک کے درمیان کسی بھی مسئلے کا پائیدار حل صرف بات چیت اور اسٹریٹجک تعاون کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ حالیہ پیش رفت میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہائی پروفائل دہشت گرد کی گرفتاری میں مدد کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ سفارتی خیر سگالی کا یہ اقدام پاکستان کے لئے اہم موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ افغانستان سے پیدا ہونے والے دہشت گرد حملوں کی بڑھتی ہوئی لہر سے نمٹنے، خاص طور پر انسداد دہشت گردی کی انٹیلی جنس شیئرنگ کو مضبوط بنانے، سرحدی سلامتی کے اقدامات میں اضافے اور کثیر الجہتی سفارتی روابط اور پائیدار تعاون کے ذریعے علاقائی استحکام کو محفوظ بنانے کے لئے امریکہ سے دوطرفہ مدد حاصل کرے۔ اسلام آباد کو واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعاون پر مبنی تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے انٹیلی جنس کے تبادلے، انسداد دہشت گردی کی معاونت اور عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں جدید ہتھیاروں کا بہاؤ روکنے کے لئے سخت اقدامات کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ ایسے میں جب پاکستان کو بڑھتے ہوئے سکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے، افغان سرحد پر سرگرم دہشت گرد دھڑوں کی جانب سے درپیش خطرات سے نمٹنے کے لئے امریکہ کے ساتھ فعال طور پر شامل ہونا ضروری ہے۔ سفارتی تعلقات کو مضبوط بنانا اور واشنگٹن سے اسٹریٹجک حمایت حاصل کرنا بڑھتے ہوئے بحران کو کم کرنے میں اہم ثابت ہوسکتا ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حنا ایر۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)