خواتین کے عالمی دن 2025ء کا موضوع ’تیز رفتار عمل درآمد‘ رکھا گیا ہے، جس میں صنفی مساوات کے حصول کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اس موضوع میں خواتین کی سماجی سرگرمیوں زیادہ سے زیادہ شرکت، مختص وسائل کی تقسیم میں اضافہ‘ عالمی سطح پر خواتین کو آگے بڑھانے اور بااختیار بنانے کے لئے حکمت عملی تیار کرنے جیسے مراحل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ صنفی مساوات کی راہ میں بڑی رکاوٹ موسمیاتی (آب و ہوا) کی تبدیلی ہے، جو متعدد شعبوں میں خواتین کی ترقی اور سلامتی کو متاثر کئے ہوئے ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث وارد ہونے والی آفات موجودہ صنفی عدم مساوات کو بڑھا رہی ہیں، جس سے خواتین کو غذائی عدم تحفظ، صحت کی دیکھ بھال‘ تعلیم تک محدود رسائی اور صنف کی بنیاد پر تشدد کے واقعات اور خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ صنفی مساوات اور آب و ہوا کی تبدیلی کے درمیان تعلق خاص طور پر غذائی تحفظ اور پانی کی قلت کی صورت واضح ہے۔ شدید موسمی حالات جیسا کہ غیر معمولی بارشیں، خشک سالی، اور ہیٹ ویو دنیا بھر میں زراعت کو منفی طور پر متاثر کر رہے ہیں۔ دیہی علاقوں میں خواتین زرعی شعبے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور فصلوں کی کاشت میں مدد کرتی ہیں تاہم، آب و ہوا میں خلل فصلوں کی پیداوار کو کم کرتا ہے، جس کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ اور خواتین کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نتیجتاً، حاملہ خواتین اور نوجوان لڑکیاں اکثر غذائی قلت کا شکار ہوتی ہیں، جس سے نہ صرف ان کی بلکہ آنے والی نسلوں کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ ان خطرات کو کم کرنے کے لئے حکومتوں کو خواتین کاشتکاروں کے لئے فصل بیمہ متعارف کرانا چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ آب و ہوا سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کوششوں میں خواتین اور لڑکیوں کی غذائی ضروریات کو مدنظر رکھا جائے۔ اسی طرح، دیہی علاقوں میں، گھریلو استعمال کے لئے پانی جمع کرنے کی ذمہ دار ی خواتین کی ہوتی ہے۔ پانی کی قلت ان کے کام کے بوجھ میں نمایاں اضافہ کرتی ہے، جس کی وجہ سے انہیں صاف پانی تک رسائی حاصل کرنے کے لئے طویل فاصلہ طے کرنا پڑتے ہیں۔ اس سے ان کی فصلوں کی کھیتی کرنے اور ذریعہ معاش کمانے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور انہیں غذائی قلت اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سمیت صحت کے خطرات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صاف پانی کی کمی سماجی و اقتصادی سرگرمیوں میں خواتین کی شرکت کو مزید محدود کرتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ”گھر میں غیر محفوظ پانی، بیت الخلأ کا نہ ہونا اور ہاتھ نہ دھونے سے خواتین بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں اور ان کی فلاح و بہبود بھی متاثر ہوتی ہے جبکہ بیماریوں کے باعث غربت کا چکر بھی ختم نہیں ہوتا۔“ اِن عوامل سے نمٹنے کے لئے، پانی ذخیرہ کرنے، سیلاب کو روکنے اور زمین کو سیراب کرنے کے لئے چھوٹے پیمانے پر ڈیم تعمیر کئے جا سکتے ہیں۔ ذخیرہ شدہ پانی کو پینے اور گھریلو استعمال کے لئے محفوظ بنانے کے لئے مناسب فلٹریشن سسٹم بھی نافذ کیا جائے۔آب و ہوا سے متعلق آفات صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کو بھی تباہ کرتی ہیں۔ ہسپتالوں اور اسکولوں کی تباہی‘ طبی اور تعلیمی عملے کی عدم دستیابی خواتین کی ضروری صحت کی دیکھ بھال اور انہیں سیکھنے کے مواقعوں سے محروم کرتی ہیں۔ آب و ہوا کی ہنگامی صورتحال کے دوران، طبی وسائل کو اکثر فوری امدادی کاروائیوں کی طرف موڑ دیا جاتا ہے، جس سے خواتین کی صحت کی دیکھ بھال کی ضروریات نظر انداز ہوتی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو یہ بات یقینی بنانی چاہئے کہ موسمیاتی تبدیلیوں (آب و ہوا کی آفات) کے لئے مختص صحت کی دیکھ بھال کے وسائل میں خواتین کی صحت کے لئے خصوصی انتظامات شامل کرے۔ ہنگامی حالات میں تعینات میڈیکل ٹیموں کو ہمیشہ خواتین کی صحت کی دیکھ بھال کی ضروریات پورا کرنے کے لئے گائناکالوجسٹ اور دیگر ماہرین کو شامل کرنا چاہئے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے صنفی عدم مساوات کم کرنے کے لئے خواتین اور لڑکیوں کو قائدانہ کردار ادا کرنے کے لئے بااختیار بنانا جائے اور اگر ایسا کر لیا جاتا ہے تو یہ سب سے مؤثر اور پائیدار حکمت عملیوں میں سے ایک ہو گی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ظل ہما۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)۔
اشتہار
مقبول خبریں
بیرون ملک تعلیم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی اجلاس
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غیر قانونی تارکین وطن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمایہ دارانہ نظام: حیات و نجات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بہتر اساتذہ برائے مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ڈیجیٹل میدان جنگ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ٹرمپ اور پاکستان
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی اور خواتین
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کرپٹو کرنسی انقلاب
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
امریکی پالیسی کا تضاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام