بھارت امریکہ گٹھ جوڑ

نائن الیون کے بعد جب ممالک اپنے قومی مفاد میں سیاسی صف بندیوں کی کوشش کر رہے تھے تو پاکستان کے فیصلہ سازوں نے جلدبازی سے کام لیا اور محروم رہے۔ واشنگٹن نے ہمارے ساتھ غیردوستانہ برتاؤ کیا جس کے بارے میں مارک ٹوائن نے متنبہ کیا تھا کہ دینے اور لینے کا اصول سفارت کاری ہوتا ہے اور ایک فیصد دینا اور دس فیصد لینا لیکن پاکستان نے خود کشی کرنے کا فیصلہ کیا اور پراکسی جنگ کا انتخاب کیا جس نے تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ واشنگٹن کی زیر قیادت مغرب، جو پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے، نے ہماری قومی سلامتی کے خدشات کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ اپنے اقتصادی اور دیگر تعلقات کو بڑھاوا دیا جبکہ انہوں نے بھارت کی جانب سے پاکستان کو دہشت گردی برآمد کرنے والا ملک قرار دینے کے مذموم دعوے پر بھی اعتراض نہ کیا۔ امریکہ بھارت کا بین الاقوامی سطح پر احتساب کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری، ڈس انفو لیب کے انکشاف اور پاکستان اور دنیا بھر میں بھارت کے قتل و غارت گری کے باوجود امریکہ خاموش ہے۔ کابل کی دہلی سے قربت ایک اور بھارتی پالیسی کی ناکامی ہے۔ بھارت کی سرپرستی میں پاکستان میں دہشت گرد کاروائیاں 
 جاری ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا کے بیشتر ممالک کو بڑے تجارتی شراکت داروں کے طور پر استعمال کرتے ہوئے بھارت نے پاکستان مخالف بیانیے پر امریکہ کو مجبور کیا ہے جبکہ امریکہ کے لئے بھارت کے ساتھ اسٹریٹجک اتحاد کرتے ہوئے پاکستان کی رائے یا مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا۔ سال 2019ء میں ٹیکساس میں ”ہاؤڈی مودی“ ریلی میں پچاس ہزار سے زائد افراد جمع ہوئے جو امریکہ میں کسی بھی غیر ملکی رہنما کا سب سے بڑا استقبال تھا۔ ٹرمپ نے مودی کو امریکہ کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ وفادار دوستوں میں سے ایک قرار دیا جبکہ پاکستان کی امریکی انتخابات اور قیادت کے بارے میں رائے حقائق پر مبنی نہیں تھی۔ انتخابات کے دوران پاکستان کے کئی سیاستدانوں نے ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنایا جو ایک غلطی تھی اور ٹرمپ کی جیت کے بعد توہین آمیز تبصرے جھوٹے بیانات میں تبدیل ہو گئے۔ چھ بھارتی نژاد امریکیوں کے کانگریس کے لئے منتخب ہونے کے بعد، بھارتی تارکین وطن کے ارکان اب صدر ٹرمپ کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ ان میں مودی کے حامی کاش پٹیل اور ایلون مسک کے ساتھ ڈی او جی ای کی قیادت کرنے والے مودی کے ایک اور مداح وویک راما سوامی بھی شامل ہیں۔ رکی گل کو قومی سلامتی کونسل میں جنوبی اور وسطی ایشیا کے لئے سینئر ڈائریکٹر اور کش دیسائی کو وائٹ ہاؤس کا ڈپٹی پریس سیکرٹری مقرر کیا گیا ہے۔ اسٹینفورڈ کے پروفیسر ڈاکٹر جے بھٹاچاریہ کو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا ہے۔ سری رام کرشنن کو مصنوعی ذہانت پر وائٹ ہاؤس کا سینئر پالیسی ایڈوائزر مقرر کیا گیا ہے جبکہ ہرمیت ڈھلون محکمہ انصاف میں شہری حقوق کے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں گے۔ تلسی گیبرڈ کا ذکر کئے بغیر بات ادھوری رہے گی جو مودی کی اتحادی ہیں اور ٹرمپ کی انٹیلی جنس کے مشیر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ مودی کی حمایت کی اور گجرات کے قتل عام کے تناظر میں ججب امریکہ نے مودی کے داخلے پر پابندی لگائی تو واشنگٹن کے اِس فیصلے کی انہوں نے شدید مخالفت کی تھی۔ امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے
 تعلقات کے پاکستان سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ٹرمپ کی صدارت کے چند ہفتوں بعد ہی مودی نے وائٹ ہاؤس میں اُن سے ملاقات کی اور اِس موقع پر جاری ہوئے مشترکہ بیان میں پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین سرحد پار دہشت گرد حملوں میں استعمال نہ ہو۔ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین جنگ پر یورپی یونین کے موقف کو ترک کرنے اور محصولات عائد کرنے کے بعد یورپ نے مدد کے لئے مودی سے رابطہ کیا ہے۔ یورپی یونین کی صدر ارسلا وان ڈیر لیئن کی سربراہی میں بیس سے زیادہ یورپی کمشنر یوکرین‘ آزاد تجارتی معاہدے اور مشترکہ ٹیکنالوجی کے بارے میں بھارت سے مدد مانگ رہے ہیں۔سال 2024ء میں یورپی یونین اور بھارت کے درمیان تجارتی حجم 126 ارب ڈالر تھا۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں بھارت کی پیش قدمی اور نریندر مودی کے ساتھ پیرس میں حالیہ اے آئی ایکشن سمٹ کی مشترکہ صدارت کے ساتھ بات چیت میں اے آئی کو نمایاں طور پر شامل کیا جائے گا جس کے چھ ماہ بعد اجلاس ہوگا۔ جوں جوں بین الاقوامی اسٹریٹجک پالیسی میں بھارت کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر میر عدنان عزیز۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
، پاکستان کا کردار کم ہوتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں میونخ سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے ہمارے رن ٹو دی گراؤنڈ اسٹریٹجک محل وقوع کی خوبیوں کا کھل کر اظہار کیا لیکن آج کی یونی پولر دنیا میں اِس قسم کے بیان یا تقریر کا کوئی فائدہ نہیں جبکہ ضرورت سفارت کاری کے محاذ پر کامیابیاں حاصل کرنے کی ہیں۔