ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو ایک بار پھر عظیم بنانے کے لئے امریکہ اس عالمی نظام کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک رہا ہے جو اس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد بنائے رکھا تھا۔ امریکہ نیٹو کی دفاعی فنڈنگ سے لے کر کثیر الجہتی ترقی کے لائحہ عمل تک ہر امدادی کاروائی کی مالی معاونت روکنا چاہتا ہے۔ نائن الیون کے بعد اس حکم کو قانونی حیثیت دینے والے قوانین پہلے ہی ختم ہونا شروع ہو چکے تھے۔ قبل از وقت کسی بھی طاقت کو یہ حق مل سکتا ہے کہ وہ اپنے قواعد کو از سر نو ترتیب دے۔ واضح رہے کہ اِس وقت عالمی سیاست اور منظرنامے میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے کیونکہ امریکہ کثیر الجہتی پر مبنی نظام کے رہنما کی حیثیت سے اپنا کردار ترک کر رہا ہے۔بیس جنوری کے روز ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا گیا جس میں تمام غیر ملکی ترقیاتی امداد منجمد کرنے کا حکم دیا گیا یوں سالانہ 67 ارب ڈالر کی امداد معطل کر دی گئی جبکہ یو ایس ایڈ اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے پروگراموں سے کم از کم تیس ارب ڈالر فوری طور پر کم کر دیئے گئے۔ واضح طور پر یہ بڑی کٹوتی دنیا کے لئے حیران کن بھی ہے اور اِس سے عالمی ترقیاتی عمل میں خلل پڑے گا۔ سال دوہزار تیئس کے بعد سے امریکہ نے سب سے زیادہ ترقیاتی امداد فراہم کی جو عالمی سرکاری ترقیاتی امداد (او ڈی اے) کا پچیس سے تیس فیصد ہے۔انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن (آئی ڈی اے)، جو اپنی فنڈنگ کے سترہ فیصد کے لئے امریکی عطیات پر انحصار کرتی ہے‘ کو 2.8 ارب ڈالر کی کمی کا سامنا ہے، جس سے اضافی 8.4 ارب ڈالر کے قرضے خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ افریقی ترقیاتی فنڈ (اے ایف ڈی ایف) کو 197ملین ڈالر جبکہ ایشیائی ترقیاتی فنڈ (اے ایس ڈی ایف) کو 174 ملین ڈالر کا نقصان ہوگا۔ ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی)، جس نے 2023ء میں 7.3 ارب ڈالر کی امداد فراہم کی تھی، کو اب انسانی ہمدردی کے پروگراموں سمیت فنڈز کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ صحت کے پروگرام پہلے ہی متاثر ہیں، گلوبل فنڈ کو امریکی امداد میں 800 ملین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ دیگر ممالک بھی امریکہ کی پیروی کر رہے ہیں، جنہوں نے ڈبلیو ایچ او کے بجٹ کا چودہ فیصد کم کر دیا ہے۔ اِس اقدام سے نہ صرف وبائی امراض کا مقابلہ کرنے بلکہ بہت سے دیگر اہم پروگرامز (حکمت عملیوں) پر عمل درآمد کمزور ہوا ہے۔ اگرچہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ زندگی بچانے والی انسانی امداد کے لئے چھوٹ ہو سکتی ہے، جسے انہوں نے ”ادویات، طبی خدمات، خوراک، رہائش اور گزر بسر کی امداد“ کے طور پر بیان کیا لیکن امریکی امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کی چھوٹ کے بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے۔ ایڈز، تپ دق اور ملیریا سے لڑنے کے لئے عالمی فنڈ میں امریکی امداد سے مستفید ہونے والے غریب ترین ممالک کے لاکھوں افراد اپنی سانسیں روکے ہوئے ہیں۔برطانیہ کی جانب سے 2027ء تک سرکاری ترقیاتی امداد کو مجموعی قومی آمدنی کے 0.7 فیصد سے کم کرکے 0.3 فیصد کرنے کے منصوبے سے پاکستان متاثر ہوسکتا ہے جو دو طرفہ برطانوی امداد سے اہم فائدہ اٹھانے والا ملک رہا ہے۔ پاکستان میں پانی کی صلاحیت سازی کے پروگرام کے لئے یورپی یونین کی حمایت بھی خطرے میں ہے، جس سے موسمیاتی تناؤ کی اگلی دہائیوں کے لئے پانی اور توانائی کی ضروریات پورا کرنے کی ملکی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ عالمی بینک کے جاری لچک دار اور شراکتی پروگراموں کے بارے میں ابھی تک کوئی وضاحت نہیں۔ امداد میں اس طرح کی کٹوتی پاکستان کے کسانوں کے لئے سخت موسم گرما کا باعث بنے گی، جو پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے چار میں سے تین صوبوں میں درجہئ حرارت میں اضافے اور پانی کی غیر معمولی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ زراعت کا شعبہ پاکستان کی کم سے کم چالیس فیصد آبادی کو روزگار فراہم کرتا ہے، کم فنڈنگ غریب ترین افراد کو سب سے زیادہ نقصان پہنچائے گی۔ امریکہ کے پیرس معاہدے سے دستبرداری کے بعد پاکستان سمیت کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں کے لئے 120 ارب ڈالر کی سالانہ فنانسنگ کا منصوبہ متاثر ہوگا کیونکہ عالمی بینک پہلے ہی پاکستان کے صاف اور سستی توانائی میں عدم دلچسپی کا عندیہ دے چکا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر شیری رحمان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
پاکستان 1948ء سے امریکی امداد کا بڑا وصول کنندہ رہا ہے اور 1961ء سے یو ایس ایڈ کے ذریعے ترقی، تعلیم، زراعت، صنفی حقوق کے تحفظ اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی امداد کرتا رہا ہے اگرچہ پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول یہ دلیل کہ بیرونی امداد اور یو ایس ایڈ نے انحصار کے ذہنیت (کلچر) میں اضافہ کیا ہے، کسی حد تک درست بھی ہے لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ امداد میں کٹوتی فوری طور پر غریب ترین طبقات کو متاثر کرے گی، جو پہلے ہی افراط زر اور خطے میں بجلی کی بلند ترین قیمتوں کی وجہ سے مشکلات میں ہیں۔ جب تک پاکستان اپنے ٹیکس محصولات کی وصولی میں تیزی سے اضافہ نہیں کرتا اُس وقت تک ٹیکسوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ٹرمپ کی حالیہ پالیسی میں تبدیلی کے تحت پاکستان کو دی جانے والی 845 ملین ڈالر کی امریکی امداد کی معطلی کے متعدد شعبوں بالخصوص توانائی، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور معاشی ترقی پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ ایشیا اور بحرالکاہل کے علاقائی ڈائریکٹر پیو اسمتھ کا کہنا کہ بہت سے لوگوں کے لئے امریکی امداد کی بندش کے تباہ کن نتائج ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس سے 1.7 ملین افراد متاثر ہوں گے، جن میں 1.2 ملین افغان مہاجرین بھی شامل ہیں جو غیر یقینی حالات سے گزر رہے ہیں۔ امریکی امداد میں کٹوتی سے امریکی اثر و رسوخ میں کمی دیکھنے میں آئے گی، جس سے پاکستان مزید چین کی طرف بڑھے گا، جو پہلے ہی پاکستان کے بیرونی قرضوں کا 68.9 ارب ڈالر کا مالک ہے۔ عالمی سطح پر امریکی امداد میں کٹوتی (جس سے اسرائیل اور مصر کو استثنیٰ دیا گیا ہے) کے ساتھ پیرس معاہدے اور عالمی تجارت سمیت دیگر کثیر الجہتی وعدوں سے وسیع پیمانے پر دستبرداری عالمی ترقیاتی قیادت کو بیجنگ کے قریب لے جائے گی۔ مؤخر الذکر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو نے پہلے ہی چین کو دنیا کے سب سے بڑے دوطرفہ ترقیاتی شراکت دار کے طور پر پیش کر رکھا ہے۔ واشنگٹن کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ فطرت اور جغرافیائی حکمت عملی میں ایک چیز مشترک ہے اور یہ دونوں خلأ سے نفرت کرتے ہیں اگر امریکہ کنارہ کش ہوگا تو کوئی اور اُس کی جگہ بطور عالمی قائد لے لے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔