دنیا مصنوعی ذہانت یعنی آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کے شعبے میں غیرمعمولی ترقی کے دور سے گزر رہی ہے۔ جس کا مالیاتی حجم اگلے چند سالوں میں 800 ارب ڈالر سے تجاوز کرنے کا امکان ہے۔ اِسے مصنوعی ذہانت کی بالادستی کا دور بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ عالمی دوڑ نہ صرف ایک معاشی مسابقت بلکہ دنیا کی صف اوّل کی سپر پاورز کے درمیان اعلیٰ سطحی جغرافیائی سیاسی جدوجہد میں بھی تبدیل ہو چکی ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ جو بھی مصنوعی ذہانت کو کنٹرول کرے گا وہ دنیا پر غلبہ حاصل کر لے گا۔ دوسری طرف، بہت سے متعلقہ ماہرین کا خیال ہے کہ معاشی ترقی کے علاؤہ مصنوعی ذہانت کی دوڑ بالآخر انسانیت کو بڑے پیمانے پر بے روزگاری، عالمی تنازعات اور یہاں تک کہ معدومی کی طرف لے جائے گی۔مصنوعی ذہانت کے موجودہ منظر نامے سے ہٹ کر، ممالک اور کارپوریشنیں اگلی نسل کے لئے نئی قسم کی مصنوعی ذہانت تخلیق کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جسے ”ایجنٹک اے آئی (AGI)“ کا نام دیا گیا ہے۔ اے جی آئی کو بے مثال علمی
صلاحیتوں کے ساتھ ایک ’مجازی سپر ہیومن‘ کا تصور ہے۔ ایک سال کے اندر ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ اے جی آئی کسی بھی ایسے کام کو سرانجام دینے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرے گا اور ایسے کمپیوٹروں (روبوٹس) کی کارکردگی رفتار کے علاؤہ درست بھی ہو گی۔ ایک اندازے کے مطابق دو سے چھ سال کے اندر اے جی آئی افرادی قوت کے متبادل کے طور پر پچاس فیصد امکانات اور وسائل پر حاوی ہ وجائے گا۔ انسانی تاریخ میں صنعتی انقلاب نے جسمانی محنت کو بڑی حد تک متروک کر دیا۔ اب مصنوعی ذہانت کی وجہ سے اب انسانی ذہانت کے بے کار ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ تبدیلی اِس لئے بھی خطرناک ہے کیونکہ مصنوعی ذہانت کو عالمی ضابطوں کے بغیر تیار کیا جارہا ہے۔ ہر ملک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کے لئے مصنوعی ذہانت کے نت نئے اسلوب تخلیق کر رہا ہے۔ رواں برس کے اوائل میں پیرس میں اے آئی سربراہ اجلاس میں امریکہ اور برطانیہ دونوں نے کسی بھی ضابطے کو نافذ کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔مصنوعی ذہانت کے ارتقاء کا اگلا مرحلہ جسے مصنوعی سپر انٹیلی جنس (اے ایس آئی) کا جاتا ہے کے بارے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ دنیا کے چوٹی کے پیشہ ور افراد سی ای اوز، سائنسدانوں، انجینئروں، ڈاکٹروں اور محققین کی مشترکہ مہارت سے کہیں گنا زیادہ ذہین ثابت ہوگا اور زیادہ بہتر فیصلے کر سکے گا۔ جب ایک بار ’اے ایس آئی‘ انسانی ذہانت سے آگے نکل گیا تو اِس کی رفتار بے قابو ہو جائے گی اور اس صورت میں، مصنوعی ذہانت پر انسانی کنٹرول متروک ہوتا چلا جائے گا۔ مصنوعی ذہانت میں سرمایہ کاری کی سطح آج اپولو پروگرام سے کہیں زیادہ ہے، جس
نے انسان کو چاند پر اتارا تھا۔ ٹیکنالوجی کمپنیاں مصنوعی ذہانت کی تحقیق میں اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہیں اور دنیا کے ذہین ترین افراد کو بے مثال تنخواہوں پر روزگار فراہم کر رہی ہیں۔ کوانٹم کمپیوٹنگ کے ساتھ، مصنوعی ذہانت کی ترقی ناگزیر بن چکی ہے۔ اے ایس آئی کے طویل مدتی مضمرات تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اے ایس آئی کی بالادستی کے لئے یکطرفہ دباؤ چین کی جانب سے جوابی کاروائی پر اکسا سکتا ہے، جس سے ہتھیاروں کی دوڑ میں اضافہ ہو گا۔ اے ایس آئی کی ترقی پر اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش سے جوہری ہتھیاروں کی دوڑ لگے گی‘ جہاں کسی ایک ملک کی تکنیکی بالادستی کی کوشش قبل از وقت حملوں یا بڑے پیمانے پر تنازعات کا باعث بن سکتی ہے۔ بدترین صورت حال میں اس طرح کی پیش رفت عالمی جنگ اور نسل انسانی کے خاتمے پر منتج ہو سکتی ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر جاوید لغاری۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
دیکھنا یہ ہے کہ ’اے آئی‘ کی دوڑ میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ اگر پاکستان اِس شعبے میں تیزی سے کاروائی (پیشرفت) کرنے میں ناکام رہا تو اسے مصنوعی ذہانت سے چلنے والی سائبر جنگ، معاشی اخراج اور اسٹریٹجک کمزوریوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور اِن چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور مصنوعی ذہانت سے چلنے والے معاشی مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے، پاکستان کو فیصلہ کن، کثیر جہتی مصنوعی ذہانت کی حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ سب سے اہم اقدامات میں سے ایک وزیر اعظم کی سربراہی میں مصنوعی ذہانت سے متعلق قومی ٹاسک فورس کا قیام ہے، جس میں سرکاری اور نجی شعبوں کی اہم شخصیات شامل ہیں۔ پاکستان کو اسٹریٹجک پلانز ڈویژن (ایس پی ڈی) کے تحت اپنے ڈیٹا سینٹرز بھی قائم کرنے ہوں گے تاکہ غیر ملکی کنٹرول والے مصنوعی ذہانت کے بنیادی ڈھانچے پر انحصار کو روکا جا سکے۔ پاکستان کے مستقبل کا دارومدار مصنوعی ذہانت سے چلنے والی مضبوط افرادی قوت تیار کرنے اور متحرک آئی ٹی سیکٹر کو فروغ دینے پر ہے۔ تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرکے، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرکے اور فرسودہ پالیسیوں میں اصلاحات کے ذریعے پاکستان اپنے مستقبل کو محفوظ بنا سکتا ہے اور عالمی مصنوعی ذہانت کی مارکیٹ میں بامعنی حصہ حاصل کر سکتا ہے۔۔