موسمیاتی تبدیلی اسباب

یورپی یونین کی جانب سے کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکانزم (سی بی اے ایم) متعارف کرایا گیا ہے جو عالمی تجارت اور آب و ہوا کی پالیسی کی ذیل میں ہونے والی اہم (غیرمعمولی)  پیش رفت ہے۔ سی بی اے ایم کے تحت یورپی یونین کے درآمد کنندگان کو کاربن سے بھرپور اشیاء، جیسے اسٹیل، سیمنٹ، کھاد، ایلومینیم، بجلی اور ہائیڈروجن استعمال کرنے کی صورت‘ کاربن اخراج کے بارے میں اطلاع دینی ہوگی۔ پالیسی میں یہ بھی شامل ہے کہ  2026ء تک سی بی اے ایم کو یورپی یونین کے اخراج ٹریڈنگ سسٹم (ای ٹی ایس) کے ساتھ مکمل طور پر مربوط کیا جائے گا، درآمد کنندگان کو یورپی یونین کے اخراج کی حدود سے تجاوز کرنے والی اشیاء کے لئے کاربن سرٹیفکیٹ خریدنے کی ضرورت ہوگی اور مؤثر طریقے سے کاربن کی لاگت کو برابر کیا جائے گا۔ 2030ء تک سی بی اے ایم کا دائرہ کار ٹیکسٹائل سمیت تمام صنعتوں کو شامل کرنے کے لئے وسیع ہوجائے گا جو پاکستان کا سب سے بڑا برآمدی شعبہ ہے۔ سی بی اے ایم کے اثرات کاربن کا زیادہ اخراج کرنے والی صنعتوں پر انحصار کرنے والے اور برآمد کنندگان ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔ سٹیل اور ایلومینیم مینوفیکچررز کے برآمد کنندگان کو سی بی اے ایم کی وجہ سے یورپی یونین میں اور صدر ٹرمپ کے محصولات کی وجہ سے امریکہ میں بڑھتی ہوئی لاگت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے (امریکی محصولات کا کاربن کے اخراج سے کوئی تعلق نہیں) جس سے ممکنہ طور پر تجارتی پیٹرن اور عالمی سپلائی چین میں خلل پڑ سکتا ہے تاہم، صدر ٹرمپ اور یورپی یونین اکیلے نہیں جو محصولات متعارف کرا رہے ہیں۔ برطانیہ اسی طرح کا کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ ٹیکس تیار کر رہا ہے، توقع ہے کہ یہ یورپی یونین کے میکانزم جیسا یا اُس سے مطابقت و مماثلت رکھے گا۔ کینیڈا بھی ایسی ہی تقابلی پالیسیوں پر غور کر رہا ہے جبکہ چین سے ملنے والے اشاروں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ سی بی اے ایم کی صورت اپنی قسم کی پالیسی تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح، عالمی رجحان واضح ہے: کاربن کی شدت اب بین الاقوامی تجارتی پالیسیوں کا مرکزی نکتہ ہے جو کاربن کی قیمتوں اور ماحول دوست سپلائی چین کی طرف منتقلی کا فروغ ہیں۔ اِس وقت یورپی یونین کو پاکستان کی برآمدات کا صرف 1.23فیصد ایسے شعبوں میں ہے جو ابتدائی طور پر سی بی اے ایم کے تحت آتے ہیں۔ یورپی یونین کو بنیادی برآمدات میں ٹیکسٹائلز (کپڑوں کی) برآمدات فوری طور پر متاثر نہیں ہوں گی تاہم سی بی اے ایم کا دائرہ کار 2026ء کے بعد ان شعبوں کو شامل کرنے کے لئے وسیع ہوسکتا ہے۔ توانائی پر مبنی مینوفیکچرنگ کے طریقوں، فوسل ایندھن پر انحصار کم کرنے اور غیر مؤثر وسائل کے انتظام سے پاکستانی برآمدات دیگر ممالک کے مقابلے کم مسابقتی بن سکتی ہیں جب تک کہ ماحولیاتی تعمیل کے خاطر خواہ اقدامات فوری طور پر نہیں اپنائے جاتے۔ اس سے برآمد کنندگان پر دباؤ پڑتا ہے کہ وہ یورپی یونین (اور دیگر تمام) مارکیٹوں تک رسائی برقرار رکھنے کے لئے اپنے کاربن فٹ پرنٹ کو کم کریں۔یورپی یونین میں کاربن ٹیکسوں کی ادائیگی سے بچنے کے لئے عملی حکمت یہ اپنانی چاہئے کہ مقامی طور پر کاربن کے اخراج کے لحاظ سے ٹیکس نافذ کیا جائے اور شنید ہے کہ پاکستان گھریلو کاربن ٹیکس یا لیوی متعارف کرانے پر غور کر رہا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پالیسی اقدام کے طور پر کاربن ٹیکس کی سفارش کر رکھی ہے۔ آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پر پچیس ڈالر فی ٹن کاربن ٹیکس پاکستان کی سالانہ جی ڈی پی کا تقریباً ایک اعشاریہ دو فیصد آمدنی دے سکتا ہے۔ تصوراتی طور پر دیکھا جائے تو کاربن ٹیکس کی وجہ سے کاروباری ادارے اور افراد اپنے کاربن فٹ پرنٹس کم کرنے اور صاف ستھری ٹیکنالوجیز اپنائیں گے اور ایسا انہیں مجبوراً کرنا پڑے گا۔ اس کے باوجود، پاکستان کی کاربن ٹیکس پالیسی غیر یقینی کا شکار ہے خاص طور پر جب ہم وسیع تناظر میں بات کرتے ہیں۔ پاکستان کے کاربن ٹیکس کے بارے میں مزید تفصیلات آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے (ایس ایل اے) کو حتمی شکل دینے کا انتظار کر رہی ہیں اور اگر یہ ٹیکس نافذ ہو گیا تو اِس سے توانائی کی قیمتوں اور گاڑیوں کی رجسٹریشن کے اخراجات میں اضافہ ہوگا۔ کسی بھی ٹیکس کے مؤثر نفاذ اور سی بی اے ایم کی ضروریات کی تعمیل کے لئے وسیع تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عبدالقیوم سلہری۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)


 پاکستان میں اس وقت ادارہ جاتی صلاحیت اور تکنیکی مہارت کا فقدان ہے جو کاربن اخراج کی مؤثر نگرانی اور تصدیق کے لئے ضروری ہے۔ دنیا بدل رہی ہے آب و ہوا کی پالیسی اور تجارت اب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے امور ہیں۔ یورپی یونین کا سی بی اے ایم واضح کرتا ہے کہ ماحول کا خیال رکھنا اب اختیاری نہیں بلکہ ترقی کے لئے ضروری بن چکا ہے۔ پاکستان، جو موسمیاتی تبدیلیوں کے انتہائی خطرے سے دوچار ہے اور کاربن پر مبنی صنعتوں پر انحصار کرتا ہے تو پیشرفتوں کو فوری طور پر سبز معیشت کی طرف منتقلی کے محرک کے طور پر تسلیم کرنا چاہئے۔ چیلنجنگ ہونے کے باوجود، اس طرح کی منتقلی صنعت کو جدید بنانے، پائیدار سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور مستقبل کی مارکیٹ تک رسائی کو محفوظ بنانے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ کاربن ٹیکس کسی ملک کو خوش کرنے کے بارے میں نہیں۔ یہ ہماری اپنی معیشت کے مستقبل کو محفوظ بنانے سے متعلق ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لئے بھی ضروری ہے کہ ہماری معیشت کا سفر درست سمت میں رواں دواں ہو۔