کوڑا کرکٹ کو تلف کرنے کا عالمی دن ”زیرو ویسٹ“ کہلاتا ہے جس کے منانے کا بنیادی مقصد ایسا طرزعمل اختیار کرنا ہے جس سے پیداوار اور کھپت کے طریقوں میں تحفظ ماحول کی آگاہی‘ شعور اور وسائل سمیت ماحول کا تحفظ ممکن ہو۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کے مطابق دنیا بھر کے شہری علاقوں سے ہر سال 2.1 ارب سے 2.3 ارب ٹن ٹھوس فضلہ پیدا ہوتا ہے اور اگر اِس حوالے سے فوری اقدامات اور غوروخوض نہ کیا گیا تو سال 2050ء تک عالمی سطح پر سالانہ فضلے کی پیداوار 3.8 ارب ٹن تک پہنچ جائے گی۔رواں برس ”زیرو ویسٹ ڈے 2025ء“ کا موضوع فیشن اور ٹیکسٹائل کی صنعت پر مرکوز ہے اور ان شعبوں کی جانب سے پیدا ہونے والے فضلے کو کم کرنے کے لئے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یو این ای پی کے مطابق اندازہ ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں 92 ملین ٹن ٹیکسٹائل فضلہ پیدا ہوتا ہے۔ فیشن اور ٹیکسٹائل کی صنعت کی جانب سے بڑے پیمانے پر پیدا ہونے والے کچرے کے پیچھے متعدد وجوہات ہیں‘ جو اہم سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی نقصان کا سبب بنتی ہیں۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے فیشن اور رجحانات لوگوں کو اپنی سماجی حیثیت برقرار رکھنے کے لئے نئے انداز اپنانے پر مجبور کر رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں نئے کپڑوں اور ملبوسات پر غیر معمولی اخراجات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، پاکستان میں حالیہ عید کی تقریبات کے دوران، تقریبا ہر دوسری عورت نے رائج فیشن رجحان کی پیروی کرنے کے لئے ”فرشی شلوار“ خریدی یا سلائی۔ اس طرح کے فیشن رجحانات کپڑوں کی طلب میں اضافہ کرتے ہیں۔ دوسرا، فیشن اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے لباس کی نقل کی جاتی ہے۔ فیشن ڈیزائنرز اور ٹیکسٹائل مینوفیکچررز منافع سے چلنے والے اقتصادی ماڈل پر کام کرتے ہیں۔ جب معاشرے کے اندر ایک نیا رجحان ابھرتا ہے تو، یہ ڈیزائنرز اور صنعتیں اس طلب کو پورا کرنے اور منافع پیدا کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر کپڑے تیار کرتی ہیں۔ یہ کاروباری ماڈل ضرورت سے زیادہ پیداوار کا باعث بنتا ہے جس سے ٹیکسٹائل کے شعبے سے حاصل ہونے والے فضلے میں اضافہ ہوتا ہے۔ فیشن اور ٹیکسٹائل کی صنعتوں کے غیر پائیدار طریقوں سے وابستہ نفسیاتی پہلو بھی ہے۔ اشتہارات کے ذریعے، مصنوعات کو اس طرح سے پیش کیا جاتا ہے جو انہیں پرکشش اور ضروری دکھایا جائے۔ مارکیٹنگ کی یہ حکمت عملی اکثر صارفین کو ایسی اشیا خریدنے پر اکساتی ہے جن کی انہیں ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ اور ای کامرس کی تیز رفتار ترقی نے کپڑے اور فیشن کی مصنوعات کی خریداری کو زیادہ آسان بنا دیا ہے۔ متعدد آن لائن پلیٹ فارم دستیاب ہیں جو لوگوں کو گھر بیٹھے مصنوعات کی ایک وسیع رینج سے انتخاب کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ فیشن کو پیش نظر رکھتے ہوئے تیار کی جانے والی مصنوعات‘ تیاری سے فروخت کے مراحل کے علاؤہ نقل و حمل کے دوران بھی ماحولیاتی نقصان کرتی ہیں۔ ماحولیاتی نقصانات کے علاؤہ اِس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ فیشن پر خرچ کرنے کی بجائے یہی رقم زیادہ بامعنی طریقوں پر خرچ کی جائے اور بچت کے ساتھ سرمایہ کاری پر توجہ دی جائے۔ غیر ضروری طور پر کپڑوں کی خریداری پر اخراجات کی بجائے یہی رقم بچت بھی کی جا سکتی ہے جس سے سماجی و اقتصادی چیلنجوں کو کم کرنے اور معاشی مشکلات کا سامنا کرنے والے طبقات کی مدد ہو سکتی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ظل ہما۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
عالمی طاقتیں اور ایشیا
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
امریکی امداد کی بندش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بلاول بھٹو کی پیشکش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت کی طاقت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی اسباب
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پانی کی معدودی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
یورپ: غیریقینی کی صورتحال
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
استحکام پاکستان چیلنجز
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت میں اضافہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
تجارتی جنگیں اور محصولات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام