مصنوعی ذہانت اُور ترجیحات ِحکمرانی

ٹیکنالوجی تیز رفتار ہے‘کم وقت میں دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی آمد نے بہت سے ترقی پذیر ممالک کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ پہلے سے ہی ڈیجیٹل تبدیلی سے نبردآزما، ان ممالک کا ایک نئی اور نامعلوم سمت میں سفر جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے رواں سال فروری میں پہلی مرتبہ مصنوعی ذہانت ایکشن سمٹ کا انعقاد کیا تھا جس میں انہوں نے متنبہ کیا کہ دنیا مستقبل تو دور کی بات‘ حال کے لئے بھی تیار نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کو اپنی پچیس کروڑ آبادی کو مساوی ڈیجیٹل رسائی فراہم کرنے میں طویل سفر طے کرنا ہے‘ جس میں آبادی کی نصف تعداد خواتین پر مشتمل ہے۔ ملک کی اقتصادی اور سماجی ترقی کے چیلنجوں کے باوجود، پاکستان ٹیکنالوجی کے شعبے میں نمایاں پیش رفت کر رہا۔پاکستان دنیا میں فری لانسرز کے لئے چوتھی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ)، اسلام آباد کے نیشنل سینٹر آف آرٹیفیشل انٹیلی جنس لیبز نے مصنوعی ذہانت سے چلنے والے صحت کی دیکھ بھال کے نئے حل پیش کئے ہیں، جس میں تپ دق کے 98فیصد اور برین ٹیومر کے 91فیصد امراض کی درست تشخیصکی گئی ہے۔ رواں ماہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) پاکستان کی نیشنل ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ (این ایچ ڈی آر) ”ڈوئنگ ڈیجیٹل فار ڈویلپمنٹ2024ء‘ جاری کی گئی۔ مذکورہ رپورٹ اور یو این ڈی پی پاکستان کے سہ ماہی جریدے ڈویلپمنٹ ایڈوکیٹ پاکستان (ڈی اے پی) کے پہلے شمارے میں پاکستان میں مصنوعی ذہانت کے منظرنامے کو سنگ میل قرار دیا گیا ہے۔ این ایچ ڈی آر 2024ء نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں دولت کی عدم مساوات نے ڈیجیٹل تقسیم میں اضافہ کیا ہے۔ پاکستان کی نصف آبادی کو اب بھی اسمارٹ فونز، بنیادی انٹرنیٹ سروسز اور کمپیوٹرز تک رسائی نہیں ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈیجیٹل ترقی کے بغیر پاکستان میں انسانی ترقی کی سطح کم رہے گی۔ اس کی عکاسی پاکستان کے تازہ ترین پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) کی درجہ بندی سے بھی ہوتی ہے، جہاں پاکستان کے صرف اُنیس فیصد اہداف حاصل کرنے کے لئے پیشرفت جاری ہے۔ پاکستان میں خواتین کے لئے ”ڈیجیٹل والیٹ“ کا مؤثر استعمال ہو رہا ہے۔ اکسٹھ فیصد خواتین موبائل والیٹ کو اپنے بنیادی بینک اکاؤنٹ کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔  اِس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ جب دنیا مصنوعی ذہانت کے چیلنجوں اور مواقع سے نبرد آزما ہے تو پاکستان میں ڈیجیٹل منظر نامہ خاطرخواہ ترجیحات سے محروم (بہت دور) ہے۔ ایسا کرنے کے لئے، پاکستان کو ڈیجیٹل تقسیم ختم کرنا ہوگی اور اِس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ڈیجیٹل پالیسیاں عدم مساوات کو کم کریں اور زیادہ تعاون کریں۔ستمبر 2024ء میں اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس برائے مستقبل میں پاکستان سمیت رکن ممالک نے گلوبل ڈیجیٹل کمپیکٹ کی توثیق کی تھی۔ یہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز اور مصنوعی ذہانت کو چلانے کے لئے اہم فریم ورک اور روڈ میپ پیش کرتا ہے، جس میں جامع ڈیجیٹل مستقبل کے لئے تین اہداف پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ پاکستان کی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونی کیشن نے قومی مصنوعی ذہانت پالیسی 2024ء کا مسودہ تیار کیا ہے جس کا مقصد مصنوعی ذہانت کو قومی نصاب میں ضم کرنا اور اسٹارٹ اپس اور چھوٹے یا درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو مالی مراعات فراہم کرنا ہے لیکن اگر پاکستان مصنوعی ذہانت کے فوائد سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو اِسے اپنی پالیسی کو یونیورسل انٹرنیٹ تک رسائی کے عزم کے مطابق آگے بڑھانا ہوگا۔ اس کا مطلب ٹیکنالوجی کے لئے سستے حل فراہم کرنا اور قابل اعتماد ڈیجیٹل انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری متحرک کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں بالخصوص جب ہم دیہی اور پسماندہ علاقوں کی بات کرتے ہیں۔ اے آئی آٹومیشن کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے پاکستان کو تعلیم اور روزگار جیسے شعبوں میں درپیش چیلنجوں سے بھی نمٹنا ہوگا۔ مصنوعی ذہانت نئی ملازمتیں پیدا کر سکتی ہے لیکن صرف انتہائی ماہر افرادی قوت کے لئے ملازمتی مواقعوں میں اضافہ ہوگا۔ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے کچھ ایسی بے قاعدگیاں بھی پیدا ہوں گی جہاں کلرک، سیکرٹریز اور مشین آپریشنز جیسے ’معمول پر مبنی کردار‘ جو اس وقت بیالیس فیصد پاکستانیوں کے پاس ہیں، آٹومیشن کی وجہ سے متروک ہو سکتے ہیں لہٰذا پاکستان کو فوری طور پر مصنوعی ذہانت میں مہارت پیدا کرنے، غریب طبقوں کے لئے بنیادی ڈیجیٹل خواندگی کی پیشکش اور سائنس و ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی (ایس ٹی ای ایم) کو ترجیح دینے کے لئے تعلیمی اصلاحات میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔ ایجنڈا 2030ء میں صرف پانچ سال باقی رہ گئے ہیں، پاکستان کو بے مثال عزائم اور صلاحیتوں سے لیس مصنوعی ذہانت کی تکمیل کی لائن کی طرف بڑھنا ہوگا۔ 2025 دونوں کو پورا کرنے کا سال ہوسکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر سموئیل رزق۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)۔