رمضان اور آمدن

ماہ رمضان المبارک اپنی برکات اور رحمتیں بانٹ کر گزر گیا۔ یہ گہری روحانی عکاسی اور عقیدت کا مہینہ تھا جو دنیا کے دیگر حصوں کی طرح پاکستان میں بھی اہم معاشی سرگرمی کا موجب رہا۔ رمضان نے پاکستان کی معیشت کے مختلف شعبوں کو متحرک کیا اور بے شمار ذرائع معاش کو بہتر بنایا۔  عید الفطر کے پرمسرت موقع پر اختتام پذیر ہونے والا یہ مقدس مہینہ صارفین کے اخراجات، خیراتی عطیات اور مذہبی تقریبات میں اضافے کا عرصہ رہا۔ رمضان المبارک کے دوران صدقات میں اضافہ دیکھا جاتا ہے کیونکہ مسلمان غریبوں کی مدد کرنے کو اپنی مذہبی ذمہ داری سمجھتے ہوئے پورا کرتے ہیں۔ اِس سلسلے میں اہم ذریعہ زکوٰۃ ہے جو صدقہ و خیرات کی لازمی شکل ہے جس کے تحت مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے مال کا ڈھائی فیصد ضرورت مندوں کو دیں۔ پاکستان میں جہاں زکوٰۃ کے ذریعے سالانہ پانچ ارب ڈالر تقسیم کئے جاتے ہیں، یہ عمل غربت کم کرنے اور پسماندہ افراد کو تحفظ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اِسی طرح فطرانہ، عید الفطر سے پہلے دیا جانے والا لازمی عطیہ ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مالی طور پر کمزور لوگ بھی تہوار میں حصہ لے سکیں۔ فطرانہ معاشی تقسیم میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسلامک ریلیف کے مطابق، فطرانہ کے ذریعے ہر سال لاکھوں ڈالر کمیونٹیز کو منتقل کئے جاتے ہیں، جس سے کم آمدنی والے گھرانوں کو بااختیار بنایا جاتا ہے اور ان کی قوت خرید میں اضافہ ہوتا ہے۔رمضان المبارک کھانے پینے کی صنعتوں کے کاروبار میں اضافہ کرتا ہے جس کی وجہ سحری اور افطار کے اوقات میں کھانوں کی کھپت میں اضافہ دیکھا جاتا ہے۔ اِن اوقات میں بازار مصروف ہو جاتے ہیں ادارہئ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رمضان المبارک کے دوران اشیائے خوردونوش کی فروخت میں تقریباً تیس فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح، روزہ توڑنے کے لئے ضروری کھجور اور پھلوں کی مانگ میں تقریباً چالیس فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ سڑک کے کنارے کھانے پینے کی دکانوں اور ریستورانوں میں چہل پہل ہوتی ہے جس سے مقامی معیشتوں کو مزید تقویت ملتی ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی معاشی سرگرمی، ثقافتی طریقوں اُور معمولات زندگی کے درمیان باہمی انحصار کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔ عید الفطر سے پہلے خریداری کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ کپڑوں اور جوتوں سے لے کر گھریلو اشیا تک کے لئے صارفین بازاروں کا رخ کرتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ سال دوہزاربائیس میں عید سے قبل کی خریداری سے تقریبا پانچ سو ارب روپے کی فروخت ہوئی۔ ٹیکسٹائل پروڈیوسرز، درزی اور چھوٹے پیمانے کے کاریگر اس عرصے کے دوران پھلتے پھولتے ہیں اور نئے کپڑوں اور لوازمات کی طلب پورا کرتے ہیں۔ یہ معاشی رفتار نقل و حمل، لاجسٹکس اور یہاں تک کہ ڈیجیٹل مارکیٹوں تک پہنچتی ہے، جو تہواروں کے موسم کے دوران صارفین کے رویئے کی تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے۔عید الفطر بذات خود معاشی سرگرمیوں میں اضافی جہت ہے۔ جشن منانے کے لئے سفر کئے جاتے ہیں۔ انٹرسٹی بس خدمات، ریلویز اور ائر لائنز پوری صلاحیت کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ شاہراہوں اور ٹرانزٹ مراکز کے ساتھ دکانداروں کے کاروبار میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے کیونکہ مسافر ریفریشمنٹ اور تحائف خریدتے ہیں۔ عید کے اجتماعات میں اکثر وسیع پیمانے پر دعوتیں بھی شامل ہوتی ہیں، جس سے گوشت، مصالحے اور کھانا پکانے کی ضروری اشیاء کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے۔ انڈسٹری رپورٹس کے مطابق سال دوہزاربائیس میں عید کے دوران پاکستان میں گوشت کی کھپت میں پچیس فیصد اضافہ دیکھا گیا، جو تہواروں کی روایات اور مارکیٹ کی حرکیات کے درمیان ٹھوس تعلق کی عکاسی کرتا ہے۔عید الفطر کی معاشی اہمیت براہئ راست اخراجات سے بڑھ کر ہے۔ اس طرح کے تہوار غیر رسمی شعبے میں روزگار کو فروغ دیتے ہیں، یومیہ اجرت کمانے والوں، کاریگروں اور دکانداروں کو موسمی مواقع فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر سڑک کے کنارے مہندی لگانے والے فنکاروں اور کھلونے بیچنے والوں کو غیر معمولی منافع ہوتا ہے جبکہ خوردہ دکانوں اور بیکریوں کی طرف سے کرائے پر لیے گئے عارضی عملے کو بڑھتی ہوئی مانگ سے فائدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح عید کی تقریبات کے غیر معمولی مگر مؤثر فوائد نظر انداز نہیں کئے جا سکتے۔ جب خاندان تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں اور عیدی تقسیم کرتے ہیں، تو وہ ثقافتی اقدار کو تقویت دے رہے ہوتے ہیں جبکہ اس کے ساتھ معیشت کے اندر پیسہ بھی زیرگردش رہتا ہے۔ یہ مائیکرو ٹرانزیکشنز، اگرچہ انفرادی طور پر معمولی ہیں تاہم مجموعی طور پر معاشی تحریک پیدا کرتی ہیں۔پاکستان کی تہواروں پر مبنی معیشت پر انحصار دو دھاری تلوار ہے جو فوائد کو اکثر غیر مساوی طور پر تقسیم کرتے ہیں۔ پالیسی سازوں کو رمضان اور عید سے متعلق اخراجات کے مثبت اثرات بڑھانے کے لئے حکمت عملی وضع کرنے پر غور کرنا چاہئے۔ اس میں مائیکرو فنانس اسکیموں کے ذریعے چھوٹے کاروباروں کی مدد کرنا یا صارفین کے تجربات بہتر بنانے کے لئے کاروباری بنیادی ڈھانچے کی بہتری شامل ہونی چاہئے۔ مزید برآں، زکوٰۃ اور فطرانہ کی تقسیم میں شفافیت کو بھی بڑھایا جا سکتا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ زکوٰۃ اُور فطرانہ حقیقی مستحقین تک مؤثر طریقے سے پہنچ سکیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر اسامہ عبدالرؤف۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)