تجارتی جنگیں اور محصولات

تیزی سے متحرک عالمی منظر نامے میں، براعظم ایشیا کو تبدیلی کا سامنا ہے، جو معاشی انضمام کے مشترکہ عزم کی وجہ سے ہے اور یہ خطے کی معاشی ترقی و عالمی ترقی کے لئے انتہائی اہم بھی ہے۔ دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی پر مشتمل براعظم ایشیا قوت خرید کے لحاظ سے عالمی پیداوار کا تقریباً ایک تہائی حصہ رکھتا ہے۔ آئی ایم ایف نے ایشیا کے لئے سال دوہزارپچیس کے لئے چار اعشاریہ چار فیصد شرح نمو کا تخمینہ لگایا ہے جبکہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایشیا کے لئے اپنے چار اعشاریہ نو فیصد نمو کے برقرار رہنے کی پیشگوئی کی ہے جس سے عالمی معاشی توسیع کے ایک اہم محرک کے طور پر ایشیائی خطے کے کردار کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس امید افزا نکتہئ نظر کے باوجود، ایشیا کو مسلسل جغرافیائی سیاسی چیلنجوں کا سامنا ہے، جن میں بڑھتی ہوئی تجارتی رکاوٹیں، عالمی تناؤ اور معاشی غیر یقینی کی صورتحال جیسے محرکات شامل ہیں۔ یہ سب وہ عوامل ہیں جو خطے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے انٹرنیشنل ایمرجنسی اکنامک پاورز ایکٹ (آئی ای ای پی اے) کے تحت چینی مصنوعات پر بیس فیصد ٹیرف عائد کرنے پر بیجنگ کی جانب سے جوابی ردعمل سامنے آیا ہے۔ چین نے امریکی زرعی مصنوعات جیسے چکن، گندم، مکئی اور کپاس پر پندرہ فیصد جبکہ سویابین اور کے گوشت جیسی اشیا پر دس فیصد ٹیرف عائد کیا ہے۔ اس نے بڑی امریکی کمپنیوں کے ساتھ کاروباری لین دین پر بھی پابندیاں سخت کردی ہیں‘ ایسے اقدامات جو ممکنہ طور پر عالمی تجارت پر اثر انداز ہوں گے۔عالمی بینک کے سال دوہزارپچیس کے اقتصادی امکانات کا اعلان کرتے ہوئے خبردار کر رکھا ہے کہ تجارتی شراکت داروں پر امریکی محصولات بنیادی پیشگوئیوں کے مقابلے میں عالمی ترقی میں صفر اعشاریہ دو فیصد پوائنٹس کی کمی آ سکتی ہے۔ اگر متناسب جوابی اقدامات کو دیکھا جائے تو اس کے اثرات مزید خراب ہوں گے۔ چین، کینیڈا اور میکسیکو کی جانب سے ردعمل کے ساتھ عالمی اقتصادی ماحول مزید مشکل ہونے کا امکان ہے۔ جغرافیائی سیاسی تناؤ کے درمیان، چین کی اقتصادی رفتار خطے میں استحکام کی علامت بنی ہوئی ہے۔ داخلی چیلنجوں اور ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے نئے سرے سے دباؤ کے باوجود چین کی حکومت نے واضح اور مستقل پالیسی اپنا رکھی اور اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ معاشی ترقی کی رفتار سست نہ پڑے۔ چین مشرق وسطیٰ اور یورپ میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کی سرمایہ کاری کو وسعت دینے، بنیادی ڈھانچے اور تجارتی رابطوں کو مضبوط بنانے کے امکانات بھی پیش نظر رکھے ہوئے ہے۔ حالیہ ملاقات میں صدر شی جن پنگ نے نجی شعبے کے رہنماؤں اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سربراہوں (ایگزیکٹوز) سے ملاقاتیں کیں ہیں جو اُن کی جانب سے کاروبار دوست معاشی نکتہئ نظر کی طرف ممکنہ تبدیلی اور تکنیکی خود کفالت جیسے امور کو ترجیح دینے کا اشارہ ہے۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا ہے کہ چین امریکہ کی جانب سے ”من مانے محصولات“ کے خلاف جوابی کاروائی کرے گا۔ موجودہ چیلنجنگ ماحول کے باوجود، چین نے این پی سی کے حالیہ اجلاس میں دوہزارپچیس کے لئے پانچ فیصد اقتصادی ترقی کا ہدف مقرر کیا ہے، جس میں صنعتی اپ گریڈنگ، قابل تجدید توانائی اور بیرونی دباؤ کے باوجود اپنی معاشی رفتار کو برقرار رکھنے کے لئے گھریلو طلب کو بڑھانے پر زور دیا گیا ہے۔ بڑھتے ہوئے محصولات اور زیادہ منقسم عالمی منظرنامے کے درمیان، ایشیائی معیشتیں تجارتی تنوع کی کوششیں تیز کر سکتی ہیں، یورپ، مشرق وسطی اور انٹرا ایشین مارکیٹوں کے ساتھ تعلقات مضبوط کر کے تجارتی انحصار کا ازسرنو جائزہ لیا جا رہا ہے۔پاکستان کے لئے موجودہ معاشی چیلنجز پہلے ہی اہم ہیں اور تجارتی جنگ ان میں مزید اضافے کا باعث بنی ہوئی ہے۔ مالی سال دوہزارپچیس کی پہلی ششماہی میں ملکی معیشت میں استحکام کے اشارے ملے ہیں جو آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے ہیں تاہم، ان بہتریوں کے باوجود، معاشی ترقی زیادہ تر سرمایہ کاری پر مبنی ہونے کی بجائے کھپت پر مبنی ہے، جس میں صنعتی شعبے کی ناقص کارکردگی اور مسلسل تجارتی خسارے نے آمدن و اخراجات کے توازن کو متاثر کیا ہے۔ پاکستان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں اسٹریٹجک فیصلہ سازی کو اس کے معاشی اہداف و مفادات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ امریکہ اور چین دونوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا پاکستان کے لئے اسٹریٹجک طور پر ناگزیر ہو چکا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر حسن داؤد بٹ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)