امریکہ معاشی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے اور 10 اپریل 2025ء کو سٹاک مارکیٹ میں گراوٹ اِس سلسلے میں خوفناک الرٹ کال قرار دی جا رہی ہے۔ اس دن ڈاؤ جونز انڈسٹریل اوسط میں صرف گراوٹ نہیں آئی بلکہ اس میں 1000پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی، جس نے نیسڈیک اور ایس اینڈ پی 500 کو پیچھے دھکیل دیا جب سرمایہ کار باہر نکلنے کی دوڑ میں تھے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے چینی مصنوعات پر محصولات میں 145فیصد تک اضافے کی وجہ سے یہ ہچکچاہٹ نہیں تھی بلکہ مکمل بحران تھا۔ چین کی جانب سے امریکی برآمدات پر 125فیصد محصولات عائد کرنے کے فیصلے نے امریکہ کو 1930ء کی دہائی کے بعد سے سب سے زیادہ محصولات میں پھنسا دیا، یہ وہ دور تھا جب تحفظ پسندی نے دنیا کو گریٹ ڈپریشن میں دھکیل دیا تھا۔ واشنگٹن کا تاریخ پر دھیان دینے سے انکار موت کی خواہش ہے۔ اس پاگل پن کو مزید پیچیدہ بنانا چین کے حوصلے اور دھوکہ دہی کا عجیب و غریب اندازہ ہے۔ امریکہ ایک ایسے جال میں پھنس رہا ہے جو اس نے خود بنایا ہے اور یہ ہر گھڑی تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔10 اپریل کے روز امریکہ میں جو حصص کی گراوٹ ہوئی وہ کسی بھی طرح معمولی نہیں تھی بلکہ حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف مارکیٹ کا احتجاج اور بغاوت تھا۔ ڈاؤ کی 1000پوائنٹس کمی کئی برسوں میں بدترین رہی جس میں نیسڈیک اور ایس اینڈ پی 500 کی قدر میں اضافہ ہوا اور وال اسٹریٹ میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ 8 اپریل کو سفارتی بحران کی افواہوں کی وجہ سے یہ امید بھی جاتی رہی تھی کہ چین پر 145فی صد امریکی محصولات اور بیجنگ کی جانب سے 125 فی صد جوابی کاروائی کے زیادہ سخت نتائج سامنے آئیں گے۔ مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ میں اضافہ ہوا، سرمایہ محفوظ پناہ گاہوں کی طرف بڑھ گیا اور سرمایہ کاروں کا اعتماد پتلی ہوا میں تبدیل ہو گیا۔ یہ ٹرمپ کے ’امریکہ فرسٹ‘ جیسے نعرے کے لئے کسی بھی طرح کامیابی کی بات نہیں تھی۔ حصص مارکیٹیں معیشت کی نبض ہوتی ہیں اور دس اپریل کو، انہوں نے وہ نعرے لگائے جو واشنگٹن نہیں سننا چاہتا تھا کیونکہ تجارتی جنگ ایک طرح سے ہاری ہوئی جنگ ہوتی ہے۔امریکہ اور چین کے تجارتی خسارے کے بارے میں امریکی انتظامیہ جنون کا شکار ہے۔ سال 2023ء میں 2956 ارب ڈالر کی اشیا‘ جن میں بمشکل 20 ارب ڈالر کی خدمات سرپلس ہیں کو حب الوطنی کے طور پر پیش کیا گیا جو کہ ایک فریب ہے۔ ٹرمپ اسے امریکہ کے استحصال کے ثبوت کے طور پر پیش کر رہے ہیں لیکن یہ درست نہیں۔ نوبل انعام یافتہ پال کرگمین جیسے ماہرین اقتصادیات نے کہا ہے کہ تجارتی خسارہ امریکہ کی درآمدات اور سرمایہ کاری کی خواہش کا ایک حصہ ہے۔ امریکہ ہار نہیں رہا بلکہ انتخاب کر رہا ہے۔ اس کے باوجود وائٹ ہاؤس 145 فیصد محصولات عائد کرتا ہے، جس سے سپلائی چین کو نقصان پہنچا ہے اور کاروباری اداروں اور صارفین کے لئے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 10 اپریل کی مارکیٹ میں گراوٹ ایک ایسی پالیسی کا ناگزیر رد عمل تھا جو بچت سے کہیں زیادہ خوبیوں کا گلا گھونٹتی دکھائی دی۔ ٹیرف خسارے کو ٹھیک نہیں کرے گا بلکہ یہ معیشت کو خشک کر دے گا۔تجارتی خسارے اور اِس سے نمٹنے کی ایک اپنی الگ تاریخ رہی ہے اور امریکہ اس سے بخوبی آشنا ہے۔ 1930ء میں سموٹ ہولی ٹیرف ایکٹ نے امریکی صنعتوں کے تحفظ کے لئے ڈیوٹیوں میں اضافہ کیا جس کا نتیجہ تباہ کن برآمد ہوا تھا۔ عالمی تجارت اُس وقت 66فیصد تک گر گئی تھی اور تجارتی پابندیوں کی صورت جوابی کاروائیوں میں اضافہ ہوا تھا جس سے گریٹ ڈپریشن نے اپنے پنجے مزید گہرے کر لئے تھے۔ اُس وقت اسٹاک میں گراوٹ آئی، بے روزگاری 25فی صد تک پہنچ گئی اور بحالی اس وقت تک غائب ہو گئی جب تک کہ جنگ نے بورڈ کو دوبارہ ترتیب نہیں دیا۔ آج، جب امریکی محصولات اوسطا 25 فیصد ہیں‘ جو 1909ء کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ اس کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ سموٹ ہولی نے خوشحالی کی حفاظت نہیں کی۔ اس نے اسے آگ لگا دی اور دس اپریل کے بازار میں ہونے والے قتل عام سے ثابت ہوتا ہے کہ اب وہی آگ بھڑک رہی ہے۔چین امریکہ کو تجارتی جنگ میں پیچھے چھوڑ رہا ہے۔ چین پر 145فی صد محصولات عائد کرنا تباہی کا راستہ ہے جس میں بڑھتی ہوئی افراط زر، سرمایہ کاروں میں خوف اور 1930ء کی دہائی کے ڈراؤنے خواب کو دوبارہ پیش کیا گیا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر یوسف نذر۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
امریکی امداد کی بندش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بلاول بھٹو کی پیشکش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت کی طاقت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی اسباب
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پانی کی معدودی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
یورپ: غیریقینی کی صورتحال
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت میں اضافہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت اُور ترجیحات ِحکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
استحکام پاکستان چیلنجز
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
تجارتی جنگیں اور محصولات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام