پاکستان میں سیمنٹ کی صنعت نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ قومی معیشت میں اہم شراکت داروں میں سے ایک کے طور پر‘ اس شعبے کو بڑھتے ہوئے چیلنجوں‘ کوئلے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں‘ بڑھتے ہوئے ماحولیاتی ضوابط اور کاربن کا اخراج کم کرنے کیلئے عالمی دباؤ کا سامنا ہے۔ اپنی برتری برقرار رکھنے اور طویل مدتی افادیت یقینی بنانے کیلئے‘ اس صنعت کو توانائی کی بچت والے پیداواری طریقوں کو اپنانا ہوگا۔ کوئلے‘ خاص طور پر درآمد شدہ افریقی اور افغان کوئلے پر انحصار مالی خطرات کا پیش خیمہ ہے جبکہ توانائی کی بچت والی ٹیکنالوجیز کو اپنا کر کم کیا جاسکتا ہے۔ توانائی کی کھپت بہتر بنا کر‘ سیمنٹ مینوفیکچررز پیداواری اخراجات کم کرسکتے ہیں۔ کاربن کے اخراج کو بھی کم کرسکتے ہیں اور پائیداری کے ساتھ کاروباری اہداف کے ساتھ ہم آہنگ ہوسکتے ہیں۔کوئلہ پاکستان میں سیمنٹ کی پیداوار کیلئے توانائی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ اس درآمدی جنس کی قیمتوں میں نمایاں فرق ہے۔ افریقی کوئلے کی قیمت 198ڈالر فی ٹن‘ افغان کوئلے کی قیمت 162ڈالر فی ٹن اور مقامی پاکستانی کوئلے کی قیمت 93ڈالر فی ٹن ہے۔ کوئلے پر اس انحصار کو
دیکھتے ہوئے‘ فی ٹن توانائی کی کھپت کو بہتر بنانا لاگت کو کم کرنے اور قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کو برداشت کرنے کے لئے اہم ہیں۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی (آئی ای اے) کا اندازہ ہے کہ 2050ء تک کاربن کے اخراج کو صفر تک پہنچانے کے لئے سمینٹ کی پیداوار میں توانائی کی ضرورت کو سالانہ 0.8فیصد تک کم کرنا ہوگا‘ جس سے عالمی اوسط 3.2گیگاجولز (جی جے) فی ٹن تک پہنچ جائے گی۔ اس منتقلی کو بایوماس اور قابل تجدید فضلے کو توانائی کے مکس میں ضم کرکے آسان بنایا جاسکتا ہے۔ سیمنٹ کی پیداوار کے لئے 3.6 سے 4.0 جی جے فی ٹن کلنکر کی ضرورت ہوتی ہے‘ جس سے ایندھن کی لاگت پیداواری اخراجات کا اہم حصہ ہے۔ اس وقت توانائی کی کھپت کی سطح پر افریقی کوئلے سے کلنکر کی فی ٹن قیمت 31.70 ڈالر‘ افغان کوئلے سے 25.94 ڈالر اور پاکستانی کوئلے سے 14.99 ڈالر ہے۔ 2050ء تک توانائی کی کھپت کو 3.2 جی جے فی ٹن تک کم کرکے‘ یہ اخراجات بالترتیب 25.36 ڈالر‘ 20.75ڈالر اور 11.99 ڈالر فی ٹن تک کم ہوسکتے ہیں‘ جس سے کافی بچت ممکن ہوگی۔ توانائی کی ضرورت میں سالانہ 0.8فیصد سے 1.0 فیصد تک کمی کے نفاذ سے پاکستان کی سیمنٹ انڈسٹری کو اگلے 25سال میں پیداواری لاگت کو کافی حد تک کم کرنے میں مدد ملے گی۔ قلیل مدت میں‘ توانائی کی معمولی کمی قابل ذکر بچت کا باعث بن سکتی ہے۔ سیمنٹ کی پیداوار گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا باعث ہے جس کی وجہ کلنکر مینوفیکچرنگ کے توانائی پر مبنی عمل ہے۔ اس وقت یہ صنعت 0.39 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فی ٹن کلنکر خارج کرتی ہے‘ جس کے نتیجے میں روزانہ قومی اخراج 2740 ٹن ہے۔ توانائی کی کارکردگی میں بہتری سے اخراج کو 0.31ٹن فی ٹن کلنکر تک کم کیا جاسکتا ہے‘ جس سے روزانہ اخراج میں 548 ٹن کی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ یہ کمی نہ صرف پاکستان کے موسمیاتی وعدوں کو پورا
کرتی ہے بلکہ اس شعبے میں گرین فنانسنگ راغب کرنے اور عالمی کاربن کریڈٹ مارکیٹوں کا حصہ بننے کی صلاحیت میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ وہ کمپنیاں جو فعال طور پر کاربن کو ڈی کاربنائز کرتی ہیں وہ مسابقتی فائدہ حاصل کریں گی کیونکہ عالمی کاروباری طریقوں میں ماحولیاتی استحکام کو اہمیت دی جا رہی ہے جیسا کہ عالمی تجارتی قواعد و ضوابط تیار ہوتے ہیں‘ پاکستان کی سیمنٹ انڈسٹری کو کاربن سے متعلق محصولات جیسا کہ یورپی یونین کے کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکانزم (سی بی اے ایم) کا حصہ بننے کی توقع کرنی چاہئے‘ جو کاربن اخراج کی بنیاد پر درآمدات پر اضافی اخراجات عائد کرتا ہے اگرچہ سی بی اے ایم کا اطلاق پاکستان کے سیمنٹ سیکٹر پر نہیں ہوتا کیونکہ ملک یورپی یونین کو سیمنٹ برآمد نہیں کرتا لہٰذا مستقبل میں دیگر ممالک بھی اسی طرح کے ضوابط اپنا سکتے ہیں۔ اگر پاکستان کی سیمنٹ کی صنعت یورپی منڈیوں میں پھیلنا چاہتی ہے تو توانائی کی بچت کرنے والی ٹیکنالوجیز اور کاربن کے اخراج میں کمی کی حکمت عملی کو جلد اپنانا اہم ہوگا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عبادت الرحمن بابر۔ ترجمہ ابوالحسن امام)