کیا ٹرمپ ماضی سے سبق سیکھیں گے؟ 

ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ چین کو امریکہ سے آگے بڑھنے سے روکنے کیلئے پختہ عزم رکھتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کمیونسٹ ملک پر ظالمانہ محصولات عائد کرکے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ امریکہ کی عالمی بالادستی کو چیلنج نہ کیا جائے۔ روس کے ساتھ گٹھ جوڑ اور ایران کے ساتھ امن کی خواہش کا اظہار کرنے کی پالیسی سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی اقتصادی طاقت (چین) کو الگ تھلگ کرنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ عام امریکیوں کے بارے میں فکر مند ہونے کا بہانہ بھی کرتے ہیں، جن میں سے لاکھوں گلوبلائزیشن اور صنعتوں کی امریکہ سے دنیا بھر کی مختلف ریاستوں میں منتقلی کی وجہ سے ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ان مینوفیکچرنگ یونٹوں کو واپس لانے کی شدید خواہش رکھتے ہیں جو سستی مزدوری اور لامحدود منافع کی تلاش میں دیگر ممالک میں منتقل ہو چکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کو یقین ہے کہ چین کی پالیسیاں امریکہ کی گرتی ہوئی صنعتی بنیاد کی ذمہ دار ہیں اور یورپی اتحادی بھی ’امریکی مفاد پرستی‘ سے فائدہ اٹھانے کی ان کی پالیسی کے ذمہ دار ہیں تاہم ناقدین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ ٹیرف نظام واحد سپر پاور کی 
خاطرخواہ مدد نہیں کر سکے گا اور نہ ہی غنڈہ گردی کے ہتھکنڈے امریکی صنعتوں کو دوبارہ زندہ کر سکیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کو ان عوامل پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے چین عالمی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ ممالک کو تنقید کا نشانہ بنانا یا غنڈہ گردی کا کردار ادا کرنا لاکھوں امریکیوں کو روزگار، رہائش اور تعلیم فراہم نہیں کر سکتا۔ صرف پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی ہی ری پبلکن انتظامیہ کو امریکیوں کی بڑی اکثریت کی مدد فراہم کرنے میں مدد دے سکتی ہے جنہوں نے کورونا مرض کے بعد سے بہت زیادہ بدحالی دیکھی ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ چین کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کرنے کے قابل بنانے والے عوامل میں سے ایک پیداواری شعبے پر اس کی توجہ تھی اگرچہ امریکہ نے 1945ء سے اب تک جنگوں، دفاع اور تنازعات پر 24 کھرب ڈالر سے زیادہ خرچ کئے ہیں، لیکن چین نے 1949ء میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد سے شاید ہی کسی جنگ میں دل کھول کر حصہ لیا، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، تعلیم کو بہتر بنانے، تحقیق کو فروغ دینے اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے سیکھنے کیلئے بھاری مقدار میں سرمایہ مختص کیا۔ انسانی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی ملک زرعی بنیاد سے ابھرا، چند دہائیوں میں صنعتی مرحلہ مکمل کیا اور مزید چند دہائیوں میں خلائی ٹیکنالوجی کی بلندیوں کو چھو لیا۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور فوجی طاقت (چین) نے برطانیہ، فرانس، جاپان، جرمنی اور کئی دیگر ممالک کو 75 سال کے اندر پیچھے چھوڑ دیا اور طاقتور امریکہ کو شکست دینے کی تیاری کی۔ اگر ٹرمپ واقعی کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو انہیں دیگر ممالک کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ دنیا کا امیر ترین ملک ہے جو دولت اور وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ ہر شہری کیلئے رہائش کا انتظام کر سکے، انہیں مفت تعلیم اور طبی علاج فراہم کر سکے، اس کے علاؤہ اس کی ناقابل تصور مادی خوشحالی کو انسانیت کی عظیم تر بھلائی کیلئے استعمال کر سکے۔ اسے صرف غلامی کی زنجیروں کو توڑنا ہے جو مفاد پرستوں نے اس کے گلے میں ڈال رکھی ہیں جو 
عالمی طاقت کو مستقل جنگ کی حالت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ فلسطین، ایران، آئس لینڈ اور کینیڈا کے خلاف جنگ اور الحاق کی دھمکیاں صرف ان لوگوں کے مفادات کو پورا کریں گی جن کی دولت ان دائمی تنازعات پر منحصر ہے۔ امریکی صدر ڈوائٹ آئزن ہاور نے اپریل 1953ء میں نارتھ امریکن سوسائٹی آف نیوز کے ایڈیٹرز سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ہر بندوق جو بنائی جاتی ہے، ہر جنگی جہاز لانچ کیا جاتا ہے، ہر راکٹ فائر کیا جاتا ہے، آخری معنوں میں ان لوگوں سے چوری کی نشاندہی کرتا ہے جو بھوکے ہیں اور انہیں کھانا نہیں کھلایا جاتا۔ جو ٹھنڈے ہیں اور کپڑے نہیں پہنے ہوئے ہیں۔ یہ دنیا اکیلے پیسہ خرچ نہیں کر رہی ہے، یہ اپنے مزدوروں کا پسینہ، اپنے سائنسدانوں کی ذہانت، بچوں کی امید پرخرچ کر رہی ہے لیکن امریکی عوام کو درپیش تمام معاشی مشکلات کے باوجود، ٹرمپ اور ان کے کٹھ پتلی ساتھی دنیا میں مستقل امن حاصل کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں وہ یا تو خود دیگر ممالک کو دھمکیاں دے رہے ہیں یا ان بدمعاش ریاستوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو دوسری قوموں کے وجود کو خطرے میں ڈال رہی ہیں اور یہ سب تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عبدالستار۔ ترجمہ ابوالحسن امام)