خفیہ خزانہ

پہلا سوال: اسمارٹ فونز، الیکٹرک گاڑیاں، میزائل سسٹم، ونڈ ٹربائن، میڈیکل امیجنگ ڈیوائسز، ایرو اسپیس مرکب، فائیو جی نیٹ ورکس اور کوانٹم کمپیوٹنگ کو طاقت دینے کے لئے کون سے عناصر ضروری ہیں؟ جواب: نایاب زمینی عناصر (آر ای ایز) حقیقت: اسمارٹ فونز، برقی گاڑیاں، میزائل سسٹم، ونڈ ٹربائن، میڈیکل امیجنگ ڈیوائسز، ایرو اسپیس مرکب، فائیو جی نیٹ ورکس اور کوانٹم کمپیوٹنگ کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نتیجہ: عالمی طاقتوں کے ساتھ ابھرتی ہوئی معیشتیں بھی آر ای ایز کو محفوظ بنانے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔سترہ آر ای ایز میں سے نیوڈیمیم الیکٹرک وہیکل موٹرز، ونڈ ٹربائنز، اسمارٹ فون اسپیکرز اور میزائل گائیڈنس میں استعمال ہونے والے طاقتور مستقل مقناطیس ہوتے ہیں۔ نیوڈیمیم ایک لاکھ ڈالر فی ٹن قیمت رکھتا ہے اور عوامی جمہوریہ چین ’نیوڈیمیم‘ کی عالمی سپلائی کا نوے فیصد فراہم کرتا ہے۔ اس کی کمی کی وجہ سے ڈسپروسیم، جو کہ ایک بھاری آر ای ای ہے کی قیمت تقریباً چار لاکھ ڈالر فی ٹن تک پہنچ چکی ہے۔ جی ہاں، یہ جے ایف سترہ سمیت جدید طیاروں میں استعمال ہونے والے سینسرز کا اہم جزو ہے۔ جی ہاں، چین عالمی سپلائی کا پچانوے فیصد کنٹرول کرتا ہے۔ نیوڈیمیم کاربنائٹس (نایاب آتشی چٹانوں) اور پیگمیٹس (بہت موٹی آتشی چٹانوں) میں پایا جاتا ہے۔ لوئی شلمان اسلام آباد سے 230 کلومیٹر کے فاصلے پر ایم ون موٹر وے کے ذریعے پشاور جاتا ہے اور پھر جمرود اور لنڈی کوتل کے راستے مغرب کی طرف درہ خیبر کی طرف جاتا ہے۔ لو ئی شلمان کاربونیٹ کے ذخائر رکھنے والا علاقہ ہے جو پشاور الکلائن کمپلیکس کے اندر واقع ہے اور یہ الکلائن آتشی رکھنے والا علاقہ کہلاتا ہے۔ جی ہاں، لو شلمان تقریباً پانچ کروڑ سال پہلے ہمالیائی ٹیکٹونک کے دوران بننے والی الکلائن چٹانوں کے ایک مجموعے کا حصہ ہے۔ جی ہاں، جیولوجیکل سروے آف پاکستان (جی ایس پی) نے چند دہائیاں قبل تصدیق کی تھی کہ لو ئی شلمان میں آر ای ای رکھنے والی معدنیات جیسے باسٹنی سائٹ، مونازیٹ اور اپاٹائٹ شامل ہیں۔ اس صلاحیت کے باوجود، قومی ترجیحات نہیں کہ اِس کی کھوج کی جائے۔کوئٹہ سے 400 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع چاغی رسکوہ آرک میں ٹیکٹونک سیٹنگ، آتش فشاں چٹانیں اور آر ای ای کے ذخائر موجود ہیں۔ خاص طور پر دالبندین اور نوک کنڈی کی چٹانیں آر ای ایز کے لئے جیو کیمیکل بے قاعدگیوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ ہوائی ریڈیو میٹرکس جیسی جدید تکنیک اب دستیاب ہیں لیکن فنڈز کی کمی تلاش میں رکاوٹ ہے۔ سکردو، ہنزہ اور نگر میں یورینیم اور تھوریئم کی غیر معمولی طور پر زیادہ مقدار کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جی ہاں، یہ عناصر اکثر معدنیات کے ساتھ مل کر ہوتے ہیں جن میں آر ای ای ہوتے ہیں۔ دو قدامت پسند مفروضوں کی بنیاد پر دس ملین ٹن آر ای ای والے لوہے، 2فیصد آر ای ای مواد‘  لو شیلمان کی قیمت دس ارب ڈالر سے تجاوز کرسکتی ہے، جس میں عالمی قلت کی وجہ سے غیر دریافت شدہ ڈیپازٹس یا قیمتوں میں اضافے سے قیاس آرائیاں شامل نہیں۔ چاغی رسکوہ، لوئی شلمان اور گلگت بلتستان میں پاکستان کے نیوڈیمیم اور ڈسپروسیم کے آر ای ای ذخائر چین کو برآمد کرنے کی نمایاں صلاحیت رکھتے ہیں جو دنیا کا سب سے بڑا آر ای ای صارف ہے۔ چین کی جانب سے ای وی مقناطیس میں نیوڈیمیم اور ہائی ٹیک ایپلی کیشنز میں ڈسپروسیم کی طلب کے باعث پاکستان سالانہ چند ہزار ٹن سپلائی کر سکتا ہے لیکن ایسا کرنے کے لئے سیاست نہیں بلکہ تلاش کو ترجیح دینی چاہئے۔ ایسا کرنے کے لئے کان کنی کو ترجیح دینی ہوگی نہ کہ سیاست کو۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)