دریائے سندھ کا بہاؤ رواں دواں رہنا چاہئے

کئی دہائیوں سے سندھ طاس معاہدہ (آئی ڈبلیو ٹی) پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگوں اور سیاسی تنازعات کا مرکز رہا ہے۔ یہ پاکستان کی زراعت، معیشت اور توانائی کے تحفظ کے لئے ضروری قیمتی وسیلہ ہے۔ آج، دریائے سندھ سے متعلق پاکستان اُور بھارت کے درمیان اہم معاہدے کو چیلنجوں کا سامنا ہے کیونکہ بھارت نے یکطرفہ طور پر آئی ڈبلیو ٹی کو معطل کر دیا ہے، جس سے پاکستان کو ملنے والا پانی فی الوقت روکنے کا اعلان کیا گیا ہے تاہم بھارت کے لئے راتوں رات دریاؤں کا بہاؤ روکنا ممکن نہ ہو کیونکہ ایسا کرنے کے لئے اس کے 2 ڈیمز کشن گنگا اور بگلیہار (اور تیسرا، ریتلے میں پانی ذخیرہ کرنے کی زیادہ گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ ڈیمز بجلی پیدا کرنے کے لئے بنائے گئے اُور انہیں ”رن آف ریور“ ڈیم کہا جاتا ہے۔ بھارت میں اس وقت پانی ذخیرہ کرنے والے بڑے ڈیموں اور وسیع تر نہری نظام جیسے بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے تاکہ پانی کا رخ موڑا جا سکے یا روکا جا سکے۔ دریاؤں کے بہاؤ میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے لئے بڑے پیمانے پر تعمیراتی منصوبوں کی ضرورت ہوگی جن کی تکمیل دہائیوں پر نہیں تو کئی سالوں پر محیط ہو گی۔ سیاسی اور سفارتی رکاوٹوں کے علاؤہ بھارت کو انجینئرنگ، ارضیاتی، زلزلے، موسمی اور جسمانی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ہمالیائی خطہ، جس سے یہ دریا گزرتے ہیں، جغرافیائی طور پر حساس علاقے ہیں اور وہاں زلزلے بھی آتے ہیں۔ بڑے ڈیم آبی ذخائر سے پیدا ہونے والے زلزلوں کے خطرے کو بڑھاتے ہیں، جہاں جمع شدہ پانی کا وزن ارضیاتی فالٹ لائنوں پر دباؤ کو تبدیل کرکے زلزلوں کا سبب بن سکتا ہے۔ انجینئرنگ کے نکتہئ نظر سے، ایسے پہاڑی علاقوں میں بڑے دریاؤں کو نمایاں طور پر موڑنے کی صلاحیت رکھنے والے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں لاجسٹک چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بڑے پیمانے پر ڈیموں اور آبی ذخائر کو مستحکم ارضیاتی حالات کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو ان علاقوں میں موجود نہیں۔ دشوار گزار علاقوں اور ڈھلوانوں نے بھی بڑے ڈیمز کی تعمیرات کو نمایاں طور پر پیچیدہ بنا دیا ہے، جس سے اس طرح کے بنیادی ڈھانچے کے لئے لاگت اور وقت دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔ طبیعیات کے قوانین الگ سے رکاوٹ ہیں۔ پانی کی بڑی مقدار کو ان کے قدرتی راستے سے دور کرنے کے لئے بہت زیادہ توانائی اور سرنگوں اور نہروں کے انتہائی پیچیدہ نظام کی ضرورت ہوتی ہے، جو قیمت میں مہنگے ہونے کے علاؤہ انہیں برقرار رکھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ علاؤہ ازیں ماحولیاتی رکاوٹیں، جیسا کہ زلزلے کی سرگرمی کی وجہ سے ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ، قدرتی رکاوٹوں یا آبی ذخائر کے ٹوٹنے کا سبب بن سکتے ہیں، جس سے تباہ کن سیلاب آسکتا ہے۔بھارت کے حالیہ اعلانات و اقدامات سے قلیل مدت میں تین مغربی دریاؤں کے ذریعے پاکستان کے پانی کے حصے پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ اپریل سے ستمبر تک سندھ طاس میں پانی کا موسمی بہاؤ بھارت کی ذخیرہ کرنے کی حد سے تجاوز کر جاتا ہے۔ اس کے بجائے اسے مون سون کے موسم میں تین مشرقی دریاؤں (جہاں آئی ڈبلیو ٹی کے مطابق اسٹوریج ڈیم موجود ہیں) سے اضافی پانی پاکستان کی طرف چھوڑنا پڑتا ہے تاہم بھارت کی آبی جارحیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کی جانب سے معاہدے کی ذمہ داریوں کی معطلی، خاص طور پر ڈیٹا شیئرنگ اور معائنے سے متعلق، پانی کے بہاؤ کی غیر یقینی صورتحال میں اضافہ کرتی ہے، جس سے پاکستان کے لئے اپنے سیلاب کے انتظام، وسیع پیمانے پر نہری پانی پر مبنی زرعی نظام، بین الصوبائی پانی کی تقسیم اور بجلی کی پیداوار کی منصوبہ بندی کرنا مشکل ہوجاتی ہے۔ یکطرفہ طور پر آئی ڈبلیو ٹی سے الگ ہو کر اور معاہدے کی دفعات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت بتدریج کشیدگی میں اضافے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ اس صورت حال میں پاکستان کے پاس قانونی آپشنز اگرچہ محدود ہیں لیکن اہم ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر بھارت شدید سفارتی نتائج کے بغیر معاہدے کی ذمہ داریوں سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ سندھ طاس معاہدے میں یکطرفہ انخلأ کی شقیں شامل نہیں۔ بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کے کسی باضابطہ معاہدے کے بغیر چین کو برتری حاصل ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ پاکستان صرف بیرونی عوامل پر انحصار نہیں کر سکتا۔ اسے دیامر بھاشا، مہمند اور داسو جیسے ڈیموں کی تکمیل میں تیزی لا کر اپنے پانی کے ذخیرے اور سیکورٹی کو بڑھانا ہوگا۔ سندھ کا پانی گزشتہ کئی صدیوں سے اس خطے کی معاشرت اُور زندگی کا حصہ ہے جسے ہم آج پاکستان کہتے ہیں۔ اس اہم ذریعے کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے بلکہ بیرونی خطرات کے خلاف چوکس رہنے کی بھی ضرورت ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عابد قیوم سلیری۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)