بھارت جنگی جنون

بھارت کیا چاہتا ہے؟ پہلگام قتل عام کے بعد بھارت کی جانب سے اشتعال انگیزی اور الزامات کے درپردہ سیاسی عزائم و مقاصد بھی ہیں جن کے حصول کے لئے وہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتا ہے۔ جنوبی ایشیائی خطے سے متعلق بھارتی مقاصد کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کیونکہ عالمی طاقتوں کے مفادات اور دشمنیاں بھی موجود ہیں جبکہ اسٹریٹجک خودمختاری کے لئے اپنی مبینہ ساکھ کے باوجود، بھارت نے واضح طور پر اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ کیا ہے۔ علاقائی خود ساختہ کردار کی وجہ سے بین الریاستی تعلقات کی اخلاقی اور قانونی رکاوٹوں سے آزاد، بھارت بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے میں اخلاقی کمزوری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ بحرہند و بحرالکاہل کے اتحاد کی اہمیت اور جی سیون ممالک کی جانب سے کی جانے والی مداخلت نے بھارت کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ یہی وہ حربہ ہے جس نے بھارت کو جوہری ریاست کی حیثیت سے اپنے جنگی جنون کے تباہ کن نتائج سے بے خبر کر رکھا ہے۔ بھارت کے فعال آپریشنل ڈاکٹرائن اور پاکستان کے نیو وار فائٹنگ کانسیپٹ (این ڈبلیو ایف سی) کے تحت کاروائیوں میں اضافے کی وجہ سے موجودہ کشیدگی تیزی سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ اگر بھارت لائن آف کنٹرول پر چند چوکیوں پر قبضہ کرنے 
کے لئے پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو اسے جوابی کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے ممکنہ طور پر ایل او سی کے ساتھ حساس سیکٹر میں اتنی ہی تعداد میں چوکیاں کھونا پڑ سکتا ہے۔ بھارت کی جانب سے فضائی حملے اسی طرح کی شرمندگی کا باعث بنیں گے جو 2019ء میں بالاکوٹ واقعے کے دوران دیکھنے میں آئے تھے۔ روایتی جنگ بھارت کے لئے آسان نہیں کیونکہ پاکستان کی عظیم حکمت عملی اپنی جگہ حقیقت ہے۔ پاکستان ان کشمیریوں کے مؤقف کی حمایت کرتا ہے جو بھارت کے ظالمانہ تسلط اور دہشت گرد حملوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی سیاسی اور ثقافتی شناخت دوبارہ حاصل کرنے کے لئے لڑ رہے ہیں۔ ایک ایسی شناخت جسے بھارت نے 2019ء میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ذریعے چھین لیا تھا۔ اس حکمت عملی کے پیچھے بھارت کے مقاصد میں غیر قانونی طور پر الحاق شدہ علاقے پر اپنی کمزور گرفت کو مضبوط کرنا، جائیداد کی ملکیت کو تبدیل کرنا اور ریاستی آبادی تبدیل کرنا شامل ہے۔ حالیہ واقعے (پہلگام حملے) کے بعد بھارتی حکام نے کشمیریوں کی متعدد املاک کو مسمار کرنا شروع کر دیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کی کاروائیوں کی آڑ میں کی جانے والی ان مسماریوں کے نتیجے میں بالآخر ان جائیدادوں کو ضبط کیا جائے گا اور مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے بھارتی شہریوں کو منتقل کیا جائے گا۔ پہلگام جیسے واقعات کے ذریعے ہوٹل اور جوئے بازی کے مراکز کی تعمیر کے منصوبے بھی شروع کئے جا رہے ہیں‘ جن کے لئے مقامی کشمیریوں سے زبردستی زمینیں چھین کر غیر ریاستی آباد کاروں کے حوالے کی جا رہی ہیں۔ ایک اور بھارتی مقصد پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے ملک کے طور پر پیش کرنا ہے اور اس لیبل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سفارتی تنہائی کی پردہ پوشی ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسے پراکسی گروپوں کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ تیسرا مقصد پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں رکاوٹ ڈالنا ہے، یہ کام بھارت نے چین پر قابو پانے کی وسیع تر حکمت عملی کے طور پر کیا ہے۔ بھارت سندھ طاس معاہدے (آئی ڈبلیو ٹی) کو بھی معطل کرنا چاہتا ہے، جس کا مقصد پہلگام واقعے 
کی وجہ سے پیش آیا تھا۔ آئی ڈبلیو ٹی نے سندھ طاس کے تین مغربی دریاؤں کا پانی پاکستان کو الاٹ کیا جبکہ تین مشرقی دریاؤں کا پانی بھارت کو دیا۔ معاہدے میں یکطرفہ انخلا کی اجازت دینے والی کوئی شق شامل نہیں تھی۔ کسی بھی ترمیم یا اختتام کے لئے دونوں فریقوں کی باہمی رضامندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس نے ایک مستقل کمیشن بھی قائم کیا جس کا کام نگرانی اور کسی بھی ملک کی طرف سے اٹھائے گئے خدشات کو حل کرنے کے علاؤہ تنازعات کے حل کے طریقہ کار کے علاؤہ غیر جانبدار ماہر یا ثالثی عدالت کو شامل کرنا تھا۔ پاکستان کو ’ایل او سی‘ یا بین الاقوامی سرحدوں پر کسی بھی ممکنہ بھارتی حملے کا جواب دینے کے لئے مکمل طور پر چوکس رہنے کی ضرورت ہے اور بین الاقوامی قانون کی بھارتی خلاف ورزی کو بے نقاب کرنے کے لئے اپنی میڈیا اور سفارتی کاروائیوں کو تیز کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان کو بھارت کے جارحانہ عزائم کو ناکام بنانے کے لئے چین اور دیگر علاقائی و عالمی طاقتوں کے ساتھ فوری طور پر اعلیٰ سطحی رابطے شروع کرنے چاہئیں، اس کے علاؤہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی دفعات کے تحت آئی ڈبلیو ٹی کی منسوخی کا معاملہ بھی اٹھانا چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر راشد ولی جنجوعہ۔ ترجمہ ابوالحسن امام)