رواں مالی سال کے 10 ماہ گزرنے کے باوجود پی ایس ڈی پی کا محض 41 فیصد بجٹ خرچ ہوسکا

وفاقی حکومت نے 10 ماہ گزرنے کے باوجود رواں مالی سال کے لیے مختص ترقیاتی فنڈز میں سے صرف 41 فیصد رقوم ہی خرچ کرسکی ہے۔

وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے اتوار کو جاری کردہ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2025 کے ابتدائی 10 ماہ (جولائی تا اپریل) میں ترقیاتی خرچ 448 ارب 60 کروڑ روپے رہا، جو رواں مالی سال کے لیے مختص کردہ ایک ہزار 100 ارب روپے کے نظر ثانی شدہ بجٹ کے 41 فیصد سے بھی کم ہے۔

ترقیاتی بجٹ کے اخراجات کی کمی اشارہ دیتی ہے کہ عوامی شعبے کی ترقیاتی اسکیمیں (پی ایس ڈی پی) جن کا بجٹ ایک ہزار 400 ارب روپے سے کم کر کے ایک ہزار 100 ارب روپے کیا گیا ہے، مالی سال کے اختتام پر جون تک اسے خرچ نہیں کیا جاسکے گا۔

وزارت کی جانب سے اتوار کو جاری کردہ ماہانہ اعداد و شمار کے مطابق دیگر کم خرچ ہونے کے علاوہ پارلیمنٹ کے ارکان کو دی گئی رقوم واحد استثنیٰ تھیں۔

35 ارب روپے کے فنڈز کا استعمال پہلے کے نظر ثانی شدہ 25 ارب روپے کے بجٹ سے بھی زیادہ تھا، جو کہ موجودہ سال کے لیے تھا۔

وزارت خزانہ کی طرف سے موجودہ مالی سال کے لیے تیار کردہ ایک نظام نے حکومت کو کہا کہ وہ پہلی سہ ماہی میں پی ایس ڈی پی کے بجٹ کی 15 فیصد رقم جاری کرے، دوسری سہ ماہی میں 20 فیصد، تیسری میں 25 فیصد اور آخری سہ ماہی میں باقی 40 فیصد رقم جاری کی جائے۔

اس نظام کے تحت، اپریل کے آخر تک پی ایس ڈی پی کے لیے فنڈز کا اجرا سالانہ بجٹ کا کم از کم 73 فیصد یا تقریباً 805 ارب روپے ہونا چاہیے، جو اب تک خرچ ہونے والی رقم کا تقریباً دو گنا ہے۔

تمام 36 وفاقی وزارتیں، شعبے اور ان کی ایجنسیاں صرف 10 ماہ میں 339 ارب روپے خرچ کر سکیں، تاہم منصوبہ بندی کمیشن نے دعویٰ کیا کہ اس نے وفاقی وزارتوں کے لیے 10 ماہ کے دوران 638 ارب روپے کی تقسیم کی اجازت دی تھی، جو کہ وزارت خزانہ کی ہدایت کے مطابق تھا۔ تاہم، حقیقت میں صرف 339 ارب روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔

صوبے اور خصوصی علاقے، ضم شدہ اضلاع خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان نے سب سے کم رقم صرف 100 ارب روپے خرچ کی، جو کہ ان کی سالانہ تقسیم 277 ارب روپے کا 36 فیصد ہے۔

آبی وسائل کا شعبہ، جسے پی ایس ڈی پی میں سب سے زیادہ 170 ارب روپے جاری کیے گئے تھے، وہ صرف 72 ارب 50 کروڑ روپے خرچ کر سکا، حالانکہ اس نے منصوبہ بندی کمیشن سے 100 فیصد رقوم خرچ کرنے اجازت حاصل کی تھی۔

دو بڑے کارپوریٹ ادارے، نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) نے اپنے مشترکہ بجٹ 255 ارب روپے کے مقابلے میں صرف 109 ارب 40 کروڑ روپے 10 مہینوں میں خرچ کیے۔

دوسری طرف، توانائی کے شعبے نے 10 ماہ میں 53 ارب روپے یا مختص کردہ 94 ارب 50 کروڑ روپے کی سالانہ رقم کا تقریباً 55 فیصد خرچ کیا، محکمہ ماحولیات نے 5 ارب 25 کروڑ روپے کی مختص کردہ رقم سے ایک ارب 50 کروڑ روپے خرچ کیے، پلاننگ کمیشن (جو درحقیقت ترقیاتی پروگرام کا محافظ ہے) نے بھی 19 ارب روپے کے بجٹ میں سے صرف 3 ارب 85 کروڑ روپے خرچ کیے۔

ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم از کم 5 وزارتیں اور محکمے (تجارت، مواصلات، منشیات کنٹرول، مذہبی امور، خصوصی سرمایہ کاری کی سہولت کونسل) کوئی پیسہ خرچ نہیں کر سکیں۔

ابتدائی فنڈز کی واپسی

وزارت خزانہ نے پہلے ہی تمام دوسری وزارتوں اور شعبوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ موجودہ مالی سال کے لیے نظرثانی شدہ تخمینے مکمل کریں، آئندہ سال کے لیے بجٹ تخمینے تیار کریں، اور 30 اپریل تک ’متوقع بچت‘ واپس کریں۔

یہ پہلی بار تھا کہ وزارت خزانہ نے مالی سال کے اختتام سے 2 ماہ قبل فنڈز کی واپسی کا حکم دیا، یہ اقدام عوامی شعبے کی روایتی کارروائیوں میں خلل ڈال سکتا ہے۔

ماضی میں فنڈز کی واپسی کی آخری تاریخ 31 مئی ہوتی تھی، جب وزارتیں، محکمے اور کارپوریشنیں مالی سال کے آخری مہینے کے لیے اپنے مالیاتی مطالبات میں وضاحت رکھتی تھیں۔

وزارت خزانہ نے کہا ہے کہ اس آخری تاریخ میں تبدیلی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے احکام کی گئی ہے۔