ٹرمپ انتظامیہ پاکستان اور بھارت میں براہ راست مذاکرات کی بحالی کی خواہاں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت اور پاکستان کو اپنے تنازعات کے حل کے لیے اکٹھے ڈنر کی ٹیبل پر بیٹھنے کا مشورہ دینے کے چند گھنٹے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ واشنگٹن اب دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان براہ راست رابطے کی حوصلہ افزائی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

ریاض میں سعودی-امریکا سرمایہ کاری فورم سے صدر ٹرمپ کے خطاب کے بعد واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل ڈپٹی ترجمان ٹومی پِگوٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکا اب پاکستان اور بھارت کے درمیان براہ راست روابط کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

پِگوٹ نے کہا کہ ہم اس ہفتے کے آخر میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگ بندی کا خیرمقدم کرتے ہیں اور دونوں وزرائے اعظم کو امن کا راستہ اختیار کرنے پر سراہتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ہم فریقین کے درمیان براہ راست رابطے کی بھی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں۔

جب ٹومی پِگوٹ سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان نے اُن دہشت گرد سرگرمیوں کو روکنے کے حوالے سے کوئی یقین دہانی کرائی ہے جن کا بھارت الزام لگاتا ہے، تو انہوں نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، لیکن واشنگٹن کی جانب سے مذاکرات کی حمایت کا اعادہ کیا۔

اسلام آباد ایسے الزامات کو قطعی طور پر بے بنیاد قرار دیتا ہے اور بھارت پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ ان الزامات کو پاکستان کے خلاف اپنی جارحیت کو جواز دینے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

ٹومی پِگوٹ نے کہا کہ ہم اس بارے میں واضح رہے ہیں، ہم مسلسل براہ راست روابط کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، صدر بھی اس بارے میں واضح موقف رکھتے ہیں اور انہوں نے دونوں وزرائے اعظم کو امن اور دانش کا راستہ اپنانے پر سراہا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ بھارت کی جانب سے امریکا کے کردار کو مسترد کیے جانے پر واشنگٹن کا ردعمل کیا ہے، تو پِگوٹ نے کہا کہ میں اس پر قیاس آرائی نہیں کروں گا، میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم براہ راست روابط کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

میڈیا رپورٹس میں پاکستان کی بعض محفوظ ایٹمی تنصیبات سے تابکاری کے اخراج کی خبریں سامنے آنے کے بعد، جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکا نے کوئی ٹیم پاکستان بھیجی ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے پاس اس وقت اس بارے میں بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کا رویہ واشنگٹن کے لیے مایوس کن ہے، تو ترجمان نے کسی بھی تنقید سے گریز کیا، انہوں نے کہا کہ ہم جس چیز پر خوش ہیں وہ جنگ بندی ہے، یہی چیز ہمارے لیے خوشی کا باعث ہے، ہماری توجہ اسی پر مرکوز ہے، ہم چاہتے ہیں کہ جنگ بندی برقرار رہے اور ہم براہ راست روابط کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہماری توجہ جنگ بندی پر ہے، ہماری توجہ براہ راست روابط کی حوصلہ افزائی پر ہے، یہی ہماری ترجیح رہے گی، صدر اس پر بات کر چکے ہیں۔

پِگوٹ سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ اگر صدر ٹرمپ کشمیر کا تنازع حل کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو کیا وہ نوبل امن انعام کے حقدار ہوں گے؟

انہوں نے جواب دیا کہ صدر امن کے علمبردار ہیں، وہ امن کی قدر کرتے ہیں، وہ ڈیل میکر بھی ہیں اور انہوں نے بارہا یہ صلاحیت دکھائی ہے، جب تنازعات کے حل کی بات آتی ہے، تو صدر ان مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں جہاں وہ کر سکتے ہیں، وہ مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔