عین ایسے مرحلے پر جب حکومت اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کرنے جارہی ہے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے قرض پروگرام کی اگلی قسط کیلئے شرائط مزید سخت کردی ہیں‘ خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت کو درپیش خطرات کی نشاندہی بھی کردی ہے‘ دریں اثناء حکومت کی جانب سے اگلے مالی سال میں نان فائلرز کے گرد گھیرا مزید تنگ کرنے کی یقین دہانی بھی آئی ایم ایف کو کرادی گئی ہے‘ حکومت نے بتایا ہے کہ نان فائلرز کیلئے جائیداد خریدنے اور بینکوں میں لین دین پر بھی پابندی ہوگی‘ بتایا یہ بھی جارہاہے کہ اقتصادی سیکٹر کے سسٹم میں نان فائلر کی کیٹگری ختم کرنے کا فیصلہ بھی کرلیاگیا ہے‘ اس سب کیساتھ مالی سال2025-26ء کے آغاز پر یکم جولائی سے پٹرول پر194ارب روپے کی اضافی پٹرولیم لیوی عائد کرنے کا عندیہ بھی دیا جارہاہے اس سب کے ساتھ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق متعلقہ سرکاری دفاتر نے بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے کیلئے ہوم ورک بھی مکمل کرلیا ہے‘ ملک کی معیشت کو درپیش مشکلات وقت کی تلخ حقیقت ہے ایک طویل عرصے سے یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتیں قرضوں کے حصول کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں‘ معیشت کو مستحکم بنانے کیلئے متعلقہ دفاتر اتنی محنت نہیں کر پاتے کہ جتنی قرضوں کے حصول کیلئے رابطوں‘ ملاقاتوں‘شرائط پر بات کرنے اور شرائط تسلیم کرنے پر صرف ہوتی ہے۔ قرضے کی قسط منظور ہونے پر اطمینان کا اظہار اور قرضہ دینے والوں کا حکومتی پالیسیوں پر اعتماد قرار دیا جاتا ہے اس کے ساتھ ہر قرضے کیلئے عائد ہونے والی شرائط کابوجھ عام شہری پر ڈال دیا جاتا ہے کہ جو اس ساری صورتحال کا قطعاً ذمہ دار ہی نہیں ہے‘اس بوجھ نے اب عام شہری کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اس لوڈ میں کمی کے منتظر عوام پر مزید بوجھ کاعندیہ یقینا پریشانی کاباعث ہی ہوگا‘ درپیش حالات میں ضرورت حکومت کی جانب سے معاشی خود انحصاری اور قرضوں پر سے انحصار ختم کرنے کیلئے اقدامات کا سلسلہ جاری رکھنے اور اسے سپورٹ دینے کی ہے تو دوسری طرف صوبوں کی سطح پر مارکیٹ کنٹرول کیلئے ایسے اقدامات ناگزیر ہیں کہ جن کے نتیجے میں عوام کو ریلیف مل سکے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مصنوعی گرانی‘ ذخیرہ اندوزی اور مضر صحت ملاوٹ پر قابو پا کر صوبائی حکومتیں عوام کو کافی حدتک ریلیف دے سکتی ہیں جس کیلئے صرف بیانات پر انحصار کی بجائے عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔
