اہم ملاقات میں اہم فیصلے

وزیراعظم شہبازشریف نے دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کامنصوبہ روک دینے کا حکم دیا ہے‘ یہ فیصلہ جمعرات کو بلاول بھٹو کی سربراہی میں وفد کے ساتھ ملاقات میں کیا گیا‘ اسکے ساتھ ہی نہروں سے متعلق کیس کو مشترکہ مفادات کونسل میں اٹھانے کا عندیہ دیا گیا تاکہ جو بھی فیصلہ ہو ہ اتفاق رائے سے سامنے آئے اس مقصد کیلئے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس2مئی کوطلب کرلیاگیا ہے‘ بلاول بھٹو زرداری نے نہروں کے منصوبے سے متعلق پیپلز پارٹی کے اعتراضات کا نوٹس لینے پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا‘ وطن عزیز میں سیاست کا میدان طویل عرصے سے گرما گرمی کا شکار چلا آرہاہے کبھی ایک تو کبھی دوسرے ایشو پر ایک دوسرے کیخلاف الزامات اور بیانات کی بوچھاڑ ہو جاتی ہے‘ اس سب کو جمہوری نظام کا حصہ قرار دیا جاتا ہے تاہم اس کا درجہ حرارت حد اعتدال میں رہنا ضروری ہے‘ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کی حمایت میں رہی ہیں تاہم نہروں کے مسئلے پر اختلاف سامنے آیا جس پر مل بیٹھ کر بات ہوئی اور معاملات مشترکہ مفادات کونسل میں حل کرنے پر اتفاق ہوا‘ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ جمہوریت میں اختلاف رائے معمول کاحصہ ہے یہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بھی ہو سکتا ہے اور خود اتحادی پارٹیوں کے اندر بھی اختلاف رائے جماعتی طور پر سیاسی پارٹیوں میں بھی رہتا ہے اور یہ سب معمول کا حصہ ہی قرار دیا جاتا ہے اصل بات سیاسی معاملات کو مل بیٹھ کر سیاسی انداز میں حل کرنے کی ہے‘ جس کیلئے پارلیمنٹ کا پلیٹ فارم بھی ہے اور دیگر فورم بھی موجود ہیں اس میں ضرورت کھلے دل کیساتھ ایک دوسرے کامؤقف سننے کی ہے اب جبکہ 2مئی کومشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب کیا جارہاہے تو بہتر ہوگا کہ اس اہم فورم پر خیبرپختونخوا اور دیگر صوبوں کے امور بھی یکسو کئے جائیں کہ جو اس کونسل کے تحت کئے جا سکتے ہیں۔
امتحانات کا نظام؟
اس وقت تعلیمی بورڈز کے جاری امتحانات کیلئے انتظامات اور درپیش صورتحال پر بحث میں پڑے بغیر آنے والے دنوں کیلئے حکمت عملی کی ضرورت کا احساس ناگزیر ہے‘ ہرمرتبہ امتحانات اور نتائج کے ساتھ کچھ سوالات ضرور اٹھتے ہیں کہ جن میں پورے سسٹم کے اندر سقم کی نشاندہی بھی ہوتی ہے چند روز کے بیانات اور خوش کن اعلانات کے بعد خاموشی معمول کاحصہ ہے کیایہ ضروری نہیں کہ پورے صوبے میں امتحانات کے نظام کو ری وزٹ کیا جائے اسے جدید سہولتوں سے آراستہ کیا جائے اس میں موجود سقم دور ہوں اور اس نظام سے گزرنے والی افرادی قوت زیادہ موثر ہو‘ اس میں ضرورت تمام سٹیک ہولڈرز اور خصوصاً ماہرین تعلیم سے مشاورت کی ہے تاکہ فول پروف نظام سامنے آئے۔