حکومت کی جانب سے د رجنوں اعلانات اور بڑے بڑے اقدامات کے باوجود عوام کو درپیش مسائل کی شدت میں اضافہ سرکاری مشینری کے آپریشن میں سقم کی نشاندہی کرتا ہے وطن عزیز میں ہر برسراقتدار آنے والی حکومت چاہے مرکز میں ہو یا کسی بھی صوبے میں درپیش صورتحال کا ذمہ دار اپنے سے پہلے کے حکمرانوں کو ٹھہرا کر اصلاح احوال کیلئے تاریخ ساز اقدامات کا عندیہ دے دیتی ہے جبکہ برسرزمین صورتحال میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی خیبرپختونخوا میں صحت کا شعبہ حکومتی ترجیحات کا حصہ چلا آرہا ہے ایک دہائی سے زیادہ کے عرصے میں اس سیکٹر کیلئے درجنوں اصلاحات متعارف ہوئیں صحت کارڈ جیسا بڑا منصوبہ بھی دیا گیا فنڈز کے اجراء میں بھی باوجود مشکلات کے کوئی رکاوٹ نہیں رکھی گئی‘اصلاحات کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے‘ اب اضلاع کی سطح پر ہسپتالوں میں بہتری اور سہولیات کا منصوبہ بنایا جارہاہے اس سب کے باوجود اس اہم سیکٹر میں عوام کو درپیش مشکلات اپنی جگہ تلخ حقیقت ہیں‘ تعلیم کے شعبے میں غریب شہری دو کمروں کے گلی محلے کی سطح پر قائم سکول میں بچوں کو داخلے دلوانے کو سرکاری سکولوں پر ترجیح دیتے ہیں معیار تعلیم کااندازہ تعلیمی بورڈز کے نتائج میں خودبخود دکھائی دیتا ہے‘ بنیادی شہری سہولتوں کا فقدان اپنی جگہ ہے بلدیاتی ادارے انتخابات کے بعد سے اب تک فنڈز اور دیگر مسائل کاشکار رہے ہیں جس کا نتیجہ میونسپل سروسز کے متاثر ہونے کی صورت میں سامنے ہے‘ آبادی کے ایک بڑے حصے کو پینے کا صاف پانی تک نہیں مل رہا‘ اربن پلاننگ کا فقدان اپنی جگہ ہے جبکہ بڑے بڑے منصوبوں کے اعلانات کے باوجود صوبے کے دارالحکومت اور دوسرے شہروں میں ٹریفک کا مسئلہ روز بروز سنگین صورتحال اختیار کرتا چلا جارہا ہے‘ ریونیو ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن کا منصوبہ ہنوز تکمیل کے مراحل ہی میں چلاآرہا ہے درپیش منظرنامہ متقاضی ہے اس سقم کو تلاش کرنے کا کہ جس کے باعث حکومتی اقدامات اور ان کے برسرزمین نتائج کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے جارہے ہیں اس ضمن میں سب سے اہم بات اہداف کے تعین‘ ٹائم فریم اور نگرانی کے کڑے انتظام کی ہے نگرانی کے نظام میں ذمہ دار حکام کا خود آن سپاٹ جاکر حقائق کا مشاہدہ ضروری ہے صرف رپورٹس اور بریفنگ پر انحصار کافی نہیں بصورت دیگر حکومتی اقدامات عوام کیلئے بے ثمر ہی رہیں گے۔
