مالی سال2025-26ء کیلئے قومی بجٹ ایک ایسے وقت میں تیار ہو رہا ہے جب ملک کو اکانومی کے سیکٹر میں شدید مشکلات کاسامنا ہے‘ معمول کے مطابق میزانیہ کی منظوری منتخب ایوان سے لی جاتی ہے ملک کو قرضوں کے حصول کیلئے مالیاتی ادارے کی شرائط کا پابند بناتے ہوئے اب بجٹ سے پہلے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ساتھ مذاکرات مجبوری بن چکے ہیں‘ قومی بجٹ سے قبل میزانیہ کے اہم نکات پر مشتمل رپورٹس چلتی رہتی ہیں جن میں اچھی اور بری خبریں تسلسل سے آتی ہیں آنے والے بجٹ میں پہلے وزیر خزانہ سے منسوب یہ بیان سامنے آیا کہ بجٹ میں تنخواہوں میں اضافے کی کوئی تجویز نہیں جبکہ دوسرے روزوزارت خزانہ نے بیان کو سیاق و سباق کے حوالے سے غلط قرار دے دیا گزشتہ روز تنخواہیں بڑھانے کا عندیہ دیا گیا جبکہ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ نے پنشن پر ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کافیصلہ کرلیا ہے تادم تحریر اس ضمن میں کوئی وضاحت جاری نہیں ہوئی‘ بجٹ سے متعلق خبروں کے جاری سلسلے میں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ریٹیلرزو ہول سیلرز پر ٹیکس جبکہ پٹرول اور ڈیزل پر5روپے کاربن لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے‘ بجٹ میں نئے اقتصادی زونز کیلئے ٹیکس میں دی جانے والی مراعات کا خاتمہ بھی کیاجارہا ہے ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق آنے والے قومی بجٹ کے حوالے سے حکومت اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے درمیان مذاکرات آئندہ ہفتے شروع ہونے کاامکان ہے‘ ملک کی اکانومی ایک طویل عرصے سے شدید مشکلات کا شکار ہے ملک کھربوں روپے کا مقروض ہے اس ضمن میں گزشتہ روز وفاقی وزارت خزانہ نے74ہزار ارب روپے قرضے کے جو اعدادوشمار قومی اسمبلی میں پیش کئے ہیں وہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ قومی قیادت مل بیٹھ کر اصلاح احوال کیلئے حکمت عملی تجویز کرے وطن عزیز کے عرصے سے گرما گرمی کا شکار سیاسی منظرنامے میں قرضوں کے حوالے سے قابل تشویش اعدادوشمار پر کسی مثبت حکمت عملی سے متعلق تادم تحریر کوئی باقاعدہ بات ہی نہیں ہوئی نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بجٹ سے پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کئے جارہے ہیں آئی ایم ایف کی شرائط کا بوجھ پہلے ہی عام شہری اٹھا رہا ہے بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن کے علاوہ جس سیکٹر میں بھی ٹیکس لگے گا وہ ادا عام صارف ہی کرے گا کیا ہی بہتر ہو کہ ملک کو قرضوں کے گرداب سے نکالنے کے لئے حکمت عملی تجویز کی جائے اور عام شہری کو فوری ریلیف کے لئے کم از کم مارکیٹ کنٹرول کا نظام ہی بہتر بنادیا جائے۔
