اہم فیصلے اور برسرزمین نتائج

 خیبرپختونخوا کابینہ کا گزشتہ روز ہونے والا اجلاس اپنے ایجنڈے‘ فیصلوں اور جاری ہدایات کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہی قرار دیا جا سکتا ہے کابینہ اجلاس کے فیصلوں کا ثمر آور ہونا ان پر عملدرآمد کیلئے ٹائم فریم اور کڑی نگرانی کے محفوظ انتظام کیساتھ جڑا ہوا ہے کابینہ اجلاس کی کاروائی سے متعلق جاری تفصیلات کے چیدہ چیدہ  نکات میں صحت کارڈ کے تحت سہولیات کا دائرہ مزید وسیع کر دیا گیا ہے‘ اس ضمن میں ٹرانسپلانٹ سکیم منظور کرلی گئی ہے اب گردے‘ جگر اور بون میرو کے حوالے سے علاج بھی صحت کارڈ کے تحت ہو سکے گا کابینہ اجلاس میں سرکاری سکولوں کیلئے مفت کتابوں کی فراہمی کی غرض سے فنڈز منظور کرلئے گئے ہیں کابینہ نے پشاور کی ٹریفک سے متعلق مسائل کے حل کے زمرے میں رنگ روڈ کے ناصر باغ تک کے سیکشن کیلئے نان اے ڈی پی سکیم کی منظوری بھی دی جبکہ مہمند ڈیم سے پینے کے پانی کی پشاور ترسیل کی سکیم بھی منظور کی گئی‘ خیبرپختونخوا کابینہ کے30 ویں اجلاس میں میونسپل سروسز کیلئے3.6 ارب روپے کی مشینری خریدنے کی منظوری بھی دی گئی یہ مشینری مرحلہ وار خریدی جائے گی‘ صوبائی کابینہ کے اجلاس کیلئے ایجنڈے پر آنے والے نکات صوبے میں اہم نوعیت کے مسائل کے حوالے سے حکومتی سطح پر احساس و ادراک کی عکاسی کرتے ہیں اس کے ساتھ یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ حکومتی سطح پر ہونے والے اہم فیصلے عمل درآمد کیلئے موثر میکنزم نہ ہونے کے باعث عوام کیلئے بے ثمر ہی رہ جاتے ہیں‘ اس تلخ حقیقت سے چشم پوشی کی روش عرصے سے چلی آرہی ہے جس کے باعث عام شہری کیلئے متعدد اعلانات اور اقدامات بے معنی رہتے ہیں‘ صوبے میں یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتوں کی ترجیحات میں علاج اور تعلیم کی سہولیات سرفہرست ہی رہتی ہیں اور اس مقصد کیلئے اقدامات کم اور زیادہ کے فرق سے اٹھائے بھی جاتے ہیں اس سب کے باوجود دونوں سیکٹرز میں عوام کی شکایات کا اندازہ نجی علاج گاہوں اور تعلیمی اداروں میں رش سے لگایا جا سکتا ہے‘ وسائل کا مسائل کے مقابلے میں کم ہونا اپنی جگہ ان سیکٹرز کے حوالے سے حقیقت ہے جبکہ مہیا وسائل کے بہتر انداز میں استعمال کیلئے کڑی نگرانی کاانتظام نہ ہونا بھی حقیقت ہے پشاور کی ٹریفک کیلئے رنگ روڈ پر تعمیراتی کام قابل اطمینان ہے لیکن اس سے اندرون شہر ٹریفک کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی آبنوشی کے حوالے سے ترسیل کے نظام میں پائپ لائنوں کی تبدیلی بھی ضروری ہے کیا ہی بہتر ہو کہ حکومتی فیصلوں پر عملدرآمد کے پورے نظام کی مانیٹرنگ کیلئے انتظامات کو مزید بہتر بنانا جائے۔