جواب طلب سوال

وطن عزیز کی سیاست بدستور گرما گرمی کا شکار ہے‘ سخت سردی میں بھی سیاسی درجہ حرارت بلندی پر ہی رہا اور یہ سلسلہ تادم تحریر جاری ہے‘ کبھی ایک تو کبھی دوسرے ایشو پر سیاسی بیانات کی حدت اور شدت میں اضافہ ہونا معمول کی صورت اختیار کئے ہوئے ہے‘ دوسری جانب قومی اہمیت کے حامل متعدد امور یکسو کئے جانے کے متقاضی ہیں‘ اس سب کے ساتھ بہتر طرز حکمرانی کے زمرے میں آنے والے متعدد ایسے اہم معاملات ہیں کہ جن پر توجہ کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے‘ گرما گرم سیاسی فضاء میں قومی خدمات کے ذمہ دار دفاتر سے عوام کی شکایات کا گراف روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے‘ اس وقت ضرورت مہیا وسائل اور افرادی قوت کے ساتھ صرف چیک اینڈ بیلنس کے مؤثر انتظام سے عوام کے لئے ریلیف ممکن بنایا جا سکتا ہے‘ اس مقصد کے لئے حکومتی اعلانات اور اقدامات کے برسر زمین نتائج کے درمیان فاصلے کم کرنے کی ضرورت ہے‘ اس مقصد کے لئے خود احتسابی کا نظام بھی مؤثر بنانا ضروری ہے۔ وطن عزیز میں متعدد اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے خود متعلقہ دفاتر کی جانب سے رپورٹس پر انحصار کی روش چلی آ رہی ہے‘ ان رپورٹس میں عموماً سب اچھا ہے ہی درج کیا جاتا ہے جس پر ذمہ دار دفاتر اطمینان کا اظہار کر کے بے فکر ہو جاتے ہیں‘ اس روش نے نہ صرف مسائل کے انبار میں اضافہ کر دیا ہے بلکہ مختلف سیکٹرز میں اصلاح احوال کے لئے جاری ہونے والے خوش کن حکومتی اعلانات پر سے عوام کا اعتماد بھی متاثر ہو گیا ہے۔ گراس روٹ لیول پر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو متعدد جواب طلب سوالات سامنے آتے ہیں ان میں اگر صرف رمضان المبارک کی آمد سے قبل مارکیٹ کنٹرول کے حوالے سے اجلاسوں اور خوش کن اعلانات کو دیکھا جائے اور ان کے برسر زمین عملی نتائج کو جانچا جائے تو سب کچھ صرف کاغذی کاروائی تک محدود دکھائی دیتا ہے‘ رمضان المبارک اور عید کے موقع پر ٹریفک کی روانی سے متعلق انتظامات اور سڑکوں پر ٹریفک جام کی صورتحال کو دیکھا جائے تو خود فرق نظر آتا ہے جو کہ اعلان اور عملی نتائج کے درمیان فاصلوں کا ہے‘ اسی طرح سروسز کے حوالے سے متعدد سیکٹرز کا حال ہے۔ ضرورت حقائق کو جانچنے اور کاغذی رپورٹس سے ہٹ کر برسر زمین نتائج کا تجزیہ کرنے کی ہے اگر کہیں کچھ بھی بہتر ہو تو متعلقہ ذمہ داروں کی حوصلہ افزائی کی جائے بصورت دیگر آنے والے دنوں میں اعلانات پر اکتفا کی بجائے عملی نتائج پر فوکس کیا جائے۔