وطن عزیز میں سیاسی کشمکش کے ساتھ امن وامان کی صورتحال اور اقتصادی شعبے میں شدید مشکلات سے صرف نظر ممکن نہیں خود وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ ملک کے ذمے سرکاری قرضوں کا حجم74 ہزار ارب سے بھی زیادہ ہو چکا ہے اس کے ساتھ بتایا یہ بھی جارہا ہے کہ صرف6ماہ کے عرصے میں 5 ہزار142 ارب روپے کا سود بھی ادا کیا گیا جس میں 90 فیصد سود سرکاری قرضوں پر ادا کیا گیا‘ بیرونی قرضوں سے متعلق اس ضمن میں اعدادوشمار24 ہزار130 ارب روپے بتائے جارہے ہیں اس صورتحال کے اثرات سے پورا ملک متاثر چلا آرہا ہے‘یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتیں صورتحال کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالتی چلی آرہی ہیں اس مجموعی منظرنامے میں خیبرپختونخوا کا کیس بعض حوالوں سے انفرادی حیثیت کا حامل بھی ہے خیبرپختونخوا کا جغرافیہ اور بندرگاہ سے دوری اپنی جگہ حقیقت ہے جس کے اثرات صوبے کی مجموعی اقتصادیات پر مرتب ہوتے ہیں صوبے میں ایک طویل عرصے سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی نے معیشت پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں امن وامان کی صورتحال نے تو ماضی قریب میں پوری پوری صنعتی بستیوں کو تالے لگانے اور سرمایہ دوسرے صوبوں کو منتقل ہونے تک بات پہنچائی صوبے میں امن و امان کے حوالے سے چیلنج ایک بار پھر درپیش ہے اس سب کے ساتھ خیبرپختونخوا کے ساتھ ملحقہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات صوبے کے ریونیو ڈسٹرکٹس بنائے گئے ہیں جن میں تعمیر و ترقی اور عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی ایک بڑا ٹاسک ہے اس سے قبل یہاں کیلئے فنڈز وفاق سے آتے تھے اس ساری صورتحال میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سردار علی امین گنڈاپور نے گزشتہ روز صدر مملکت آصف علی زرداری کو ایک خط لکھ کر قومی مالیاتی کمیشن کے اجلاس کا کہا ہے یہ اجلاس قاعدے قانون کے مطابق ویسے بھی بروقت ہونا ضروری ہے تاکہ محاصل کی تقسیم اور مقررہ مدت کے بعد ان کی تقسیم کا ازسرنو تعین ضروری ہوتا ہے اسکے ساتھ خیبرپختونخوا کے پن بجلی منافع سمیت بعض دیگر واجبات بھی وفاق کے ذمے چلے آرہے ہیں پن بجلی منافع کا ازسرنو تعین بھی ہونا ہے جس کیلئے اے جی این قاضی فارمولہ عرصے سے موجود ہے درپیش حالات میں ضروری ہے کہ نہ صرف این ایف سی کا اجلاس بلایا جائے بلکہ خیبرپختونخوا کے دیگر واجبات کی ادائیگی بھی یقینی بنائی جائے۔
