پوچھ گچھ کا سلسلہ کب تک

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے اخراجات میں کمی کیلئے حکومت سے اصلاحاتی اقدامات پر فوری عمل درآمد کا مطالبہ کردیا ہے‘ عالمی مالیاتی فنڈ کے حکام نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ ملک میں ریونیو کے شارٹ فال کے کیس میں کوئی نرمی نہیں ہوگی‘ آئی ایم ایف نے اس حوالے سے300 ارب روپے کی کمی کو پورا کرنے کا کہا ہے‘ اسلام آباد میں جاری ملاقاتوں میں آئی ایم ایف حکام کو ملک کے بڑے شہروں میں ٹیکس نیٹ سے باہر ریٹیلرز سے متعلق بریفنگ بھی دی گئی‘ دریں اثناء بعض قومی اداروں کی نجکاری اور رائٹ سائزنگ سے متعلق امور کو نمٹایا جا رہا ہے‘ وطن عزیز میں اکانومی کا سیکٹر طویل عرصے سے مشکلات کے گرداب میں ہے اس شعبے میں اصلاح احوال کیلئے بیرونی قرضے اٹھانے کا سلسلہ یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتوں میں جاری ہے کسی دور میں یہ حجم کم اور کسی میں زیادہ رہا ہے صورتحال کی ذمہ داری بھی قومی قیادت ایک دوسرے پر ڈالتی چلی آرہی ہے‘ سیاسی بیانات میں یہ عزم بھی بار بار دہرایا جاتارہا ہے کہ ملک کوقرضوں کے جال سے نکالا جائے گا اور یہ کہ معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کیا جائیگا دوسری جانب بیرونی قرضے تو اپنی جگہ خود اندرونی اور گردشی قرضوں کا والیوم بھی وقت کے ساتھ ساتھ تشویشناک ہوتا چلا جارہا ہے‘ قرضہ دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد مجبوری بن چکا ہے اور ان شرائط کا سارا بوجھ غریب شہریوں کو کمر توڑ مہنگائی کی صورت اٹھانا پڑرہاہے اس مہنگائی کا گراف اب اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ملک میں عام شہری کیلئے اپنے کچن کا خرچہ پوراکرنا بھی دشوار ہوچکا ہے‘ قرض دینے والے شرائط پر عملدرآمد سے متعلق پوچھ گچھ بھی کرتے ہیں اور اہداف کا تعین بھی کیا جاتا ہے دوسری جانب قرضہ دینے والوں کی شرائط کے باعث حکومت کیلئے متعدد سیکٹرز میں عوام کو ریلیف دینا بھی مشکل ہو چکا ہے سبسڈیز کیلئے بھی شرائط کی پابندی کرنا پڑتی ہے ملک کی سیاست کے میدان میں طویل عرصے سے جاری تناؤ کو جمہوری نظام میں معمول کا حصہ قرار دیا جارہا ہے اس کے ساتھ اس ضرورت کا احساس بھی ناگزیر ہے کہ سینئر قومی قیادت سیاسی درجہ حرارت کو حداعتدال میں لانے اور اکانومی جیسے اہم سیکٹر میں اصلاح احوال کیلئے باہمی مشاورت سے حکمت عملی ترتیب دے تاکہ قرضوں کے چنگل اور قرضہ دینے والوں کی پوچھ گچھ سے جان چھڑائی جائے۔