اعدادوشمار اور عملی نتائج میں تضاد کیوں؟

وزیراعظم شہبازشریف نے سحر و افطار کے اوقات میں گیس کی لوڈشیڈنگ کا نوٹس لیتے ہوئے فوری اقدامات کا حکم دیا ہے دریں اثناء متعلقہ ذمہ دار دفاتر نے گیس کی فراہمی کیلئے پریشر میں 10 فیصد اضافے کا عندیہ بھی دیا ہے‘ وزیراعظم نے اشیائے ضروریہ کی دستیابی یقینی بنانے کا بھی کہا ہے جبکہ افراط زرمیں کمی پر اطمینان کا اظہار بھی کیا ہے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح کم ہو رہی ہے اور اس وقت یہ 1.5 فیصد بتائی جارہی ہے‘ رمضان المبارک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے وطن عزیز میں توانائی بحران اور اس کے نتیجے میں طلب کے مقابلے میں بجلی اور گیس کی کم رسد ایک حقیقت ہے‘ حقیقت یہ بھی ہے کہ اربوں روپے کی بجلی اور گیس چوری بھی ہو رہی ہے حقیقت یہ بھی ہے کہ بجلی اور گیس کا ضیاع بھی پوری طرح جاری ہے اس سب کیساتھ ترسیل کے نظام میں خرابیاں اپنی جگہ ہیں جہاں تک طلب کے مقابلے میں کم رسد کا سوال ہے تو اس میں بہتر مینجمنٹ کیساتھ صورتحال میں بہتری لائی جاسکتی ہے جبکہ لائن لاسز سمیت بدانتظامی کا خاتمہ کڑی نگرانی کیلئے محفوظ اقدامات کا متقاضی ہے جہاں تک تعلق مہنگائی کا گراف کم ہونے کا ہے تو اس حوالے سے اعداد وشمار اطمینان کے قابل ہونے کے ساتھ اکانومی کے سیکٹر میں حکومت کے سنجیدہ اقدامات کے عکاس ہیں جبکہ اس کے ساتھ تلخ حقیقت یہ ہے کہ عوام کو مارکیٹ میں ریلیف کا کوئی احساس نہیں ہو رہا‘ مارکیٹ میں نرخوں کا گراف مسلسل بڑھتا چلاجا رہا ہے جبکہ ذمہ دار دفاتر کی کاروائیاں کبھی کبھار کے چھاپوں تک محدود ہیں کہ جو صرف اہم کاروباری مراکز ہی میں مارے جاتے ہیں‘ رمضان المبارک کی آمد سے قبل غریب شہریوں کو ماہانہ راشن کی خریداری میں شدید مشکلات کا سامنا رہا جس نے گھریلو بجٹ کو بری طرح متاثر کیا رمضان المبارک شروع ہونے پر بھی تمام تراعلانات اور انتظامات کے باوجود مہنگائی میں کوئی کمی دکھائی نہیں دے رہی‘ کمر توڑ گرانی کے ساتھ متعدد اشیائے خوردونوش کا معیار اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے بہتر ہوتے اقتصادی اشاریے‘ توانائی سیکٹر میں درپیش مشکلات کے حل کیلئے اقدامات کا حکم یاکسی بھی سیکٹر میں اصلاح احوال کیلئے مرکز اور صوبوں کی جانب سے پیش قدمی عوام کیلئے صرف اسی صورت ثمرآور ثابت ہو سکتی ہے جب عملی طور پر ریلیف کا احساس ہو اس مقصد کیلئے پہلی ترجیح کے طور پر حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔