وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کاکہنا ہے کہ مالی سال2025-26ء کے پیش ہونے والے میزانیے میں تنخواہ دار طبقے پر سے بوجھ کم کرنے کاسوچیں گے‘ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ملک میں معاشی استحکام آرہا ہے‘ سٹاک اوپر جارہا ہے کرنسی مستحکم ہو رہی ہے پالیسی ریٹ کم ہوا ہے اور اس سب کیساتھ یہ کہ ہماری معیشت کی بنیاد بن گئی ہے‘ وزیر خزانہ ٹیکس نظام میں بہتری کا بھی بتاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ملک کو پرائیویٹ سیکٹر ہی آگے لے کر جائے گا وطن عزیز میں ہر سال نئے مالی سال کے بجٹ سے پہلے خوش کن اعلانات ہوتے ہیں جبکہ عام شہری گرانی کے گراف میں اضافے کے خدشے کا شکار بھی رہتاہے بجٹ میں حکومت کی جانب سے عوام کی فلاح و بہبود کیساتھ ملک کی تعمیر و ترقی کی باتیں بھی ہوتی ہیں ساتھ ہی مختلف شعبوں میں نئے نئے ٹیکس عائد کئے جاتے ہیں ان سب ٹیکسوں کا بوجھ سوائے سلیریز کے عام صارف کو منتقل ہوتا ہے اس صارف کی کمر مہنگائی نے توڑ کر رکھ دی ہے دوسری جانب ملک کو قرضہ دینے والوں کی ڈکٹیشن پر بننے والے بھاری یوٹیلٹی بل بھی اس صارف کو ہی ادا کرنے پڑتے ہیں مرکز اور صوبوں کی سطح پر عوام کے ریلیف کیلئے حکومتی اقدامات کی فہرستیں پیش ہونے پر تالیاں بھی بجائی جاتی ہیں اور ان اقدامات کو تاریخ ساز بھی کہا جاتا ہے تاہم برسرزمین حقائق اس قدر تلخ ہیں کہ ان سے چشم پوشی ہی برتی جاتی ہے اس وقت ملک میں حکومتوں کی جانب سے خوش کن اعلانات اپنی جگہ‘ارضی حقیقت یہ ہے کہ عام شہری کو اذیت ناک مہنگائی کا سامنا ہے‘ اس میں مصنوعی گرانی بھی شامل ہے کہ جسکا کنٹرول انتظامیہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے عام شہری کو بے روزگاری کے ہاتھوں بھی سخت پریشانی ہے‘ بنیادی شہری سہولتوں کا فقدان ڈھکی چھپی بات نہیں سروسز کے اداروں میں بے شمار اصلاحات اور بھاری فنڈز کے اجراء کے باوجودعوام کو ریلیف نہ ملنے کا گلہ ہے بھاری یوٹیلٹی بل ادا کرنے کے باوجود اذیت ناک لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں لوگ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں قومی بجٹ کا اعلان ہو یا صوبائی کا‘ ترجیحات میں عوام کا ریلیف شامل ہونے کے باوجود عوام ہی کیلئے مشکلات کا ہونا متقاضی ہے کہ وفاق اور صوبے مل بیٹھ کر اصلاح احوال کیلئے حکمت عملی ترتیب دیں تاکہ عوام کی مشکلات کا گراف کم ہوسکے۔
