یہ سب کب تک چلے گا؟

ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق حکومت نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے ڈیڑھ ارب ڈالر مالیت کا نیا قرض پروگرام حاصل کرنے کیلئے تیاریاں شروع کردی ہیں اس مقصد کیلئے آئی ایم ایف کا وفد اگلے ماہ پاکستان آرہا ہے‘ نیا قرضہ موسمیاتی تبدیلی فنڈ کے تحت اٹھایا جائیگا‘ عالمی مالیاتی ادارے سے قرض لینے کے فیصلے کی خبر ذرائع ابلاغ سے جاری ہونے سے ایک روز قبل سٹیٹ بینک آف پاکستان نے وطن عزیز کے ذمے قرضوں سے متعلق تشویشناک اعدادوشمار جاری کئے ہیں بینک کے مطابق ملک کی معیشت88 ہزار ارب روپے سے زیادہ کی مقروض ہو چکی ہے وطن عزیز میں قرضوں کے حصول کا سلسلہ عرصے سے جاری ہے ایک کے بعد دوسری برسراقتدار آنے والی ہر حکومت اپنے سے پہلے کے حکمرانوں کو صورتحال کا ذمہ دار قرار دینے کیساتھ مزید قرضے اٹھا کر رخصت ہوتی چلی جارہی ہے‘ جب ساری صورتحال کی ذمہ داری کی بات کی جائے تو ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی بھرمار شروع ہو جاتی ہے الفاظ کی اس جنگ میں اصل مسئلہ اور اسکے حل کیلئے ضروری اقدامات کی بات ہی غائب ہو کر رہ جاتی ہے‘ اس وقت بھی درپیش سیاسی منظرنامہ گرماگرمی کا شکار ہے جبکہ ملک کو امن وامان کی صورتحال سمیت مختلف شعبوں میں درپیش چیلنج اصلاح احوال کیلئے سنجیدہ اقدامات کے متقاضی ہیں ملک کو اقتصادی شعبے میں درپیش مشکلات کا خاتمہ ایسا پوائنٹ ہے جس پر اختلاف کی گنجائش نہیں بنتی ہر ایک کی خواہش ہے اور ہونی بھی چاہئے کہ ملک کی اکانومی قرضوں کے گرداب سے باہر آئے لیکن سیاسی گرماگرمی میں اس سب کیلئے مل بیٹھ کر حکمت عملی ترتیب دینے کیلئے درکار کوششیں نظرنہیں آرہیں میثاق معیشت کی باتیں کبھی کبھار سنائی دیتی ضرور ہیں اس کیلئے عملی پیش رفت کا انتظار ہی رہتا ہے وقت کا تقاضہ ہے کہ قومی قیادت صورتحال کا احساس کرتے ہوئے اس ضمن میں مکالمے کا اہتمام یقینی بنائے۔
اعلانات اور نتائج کے درمیان فاصلے
خیبرپختونخوا کے صدرمقام پشاور میں تعمیر و ترقی اور عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے درجنوں اعلانات فائلوں میں لگے ہیں‘تجاوزات کا خاتمہ ہو یا صفائی کی صورتحال میں بہتری سیوریج لائنوں کی بہتری ہو یا پھر ٹریفک سے جڑے مسائل‘ ان سب کیلئے ایسے خوش کن اعلانات ہوتے رہتے ہیں کہ جیسے چند ہی دنوں میں پشاور تبدیل ہو جائے گا‘ جبکہ برسرزمین نتائج کم ہی دکھائی دیتے ہیں کیا ہی بہتر ہو کہ حکومتی اعلانات اور عملی نتائج کے درمیان فاصلوں کو کم کیا جائے اور آن سپاٹ جاکر ذمہ دار حکام خود صورتحال کا جائزہ لیں جس طرح کمشنر پشاور ریاض خان محسود خود ہر جگہ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔