وطن عزیز کے انتہائی مشکلات کا شکار اقتصادی شعبے میں 59 لاکھ موصول شدہ ٹیکس ریٹرنز میں سے 43.4 فیصد فائلرز نے اپنی رپورٹ صفر دی صرف 3 ہزار 651 فائلر ایسے تھے کہ جن کی قابل ٹیکس آمدن 10 کروڑ سے تجاوز کرتی ہے‘ نجی ٹی وی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال کے دوران ٹیکس فائلرز کی تعداد 5.9 ملین ہے جن میں 5.8 ملین انفرادی ٹیکس فائلرز ہیں جبکہ ایسوسی ایشن آف پرسنز اور کمپنیوں کی تعداد بھی زیادہ ہے‘ دوسری جانب دیکھا جائے تو بجلی کے انڈسٹریل کنکشن تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں جبکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو انکم ٹیکس ریٹرن صرف 87 ہزار کمپنیوں کی جانب سے موصول ہوئے ہیں‘ قابل توجہ اعداد وشمار مجموعی طور پر بتا رہے ہیں کہ 5.9 ملین ٹیکس ریٹرنز میں سے 2.6 ملین افراد نے قابل ٹیکس آمدنی صفر ظاہر کی ہے۔ راشد محمود لنگڑیال گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی کے سامنے یہ بیان دے چکے ہیں کہ صرف 12 افراد ایسے ہیں کہ جنہوں نے اپنی دولت 10 ارب روپے کی حد تک ظاہر کی ہے‘ درپیش حالات میں ٹیکس کے حوالے سے سامنے والے اعداد و شمار میں ٹیکس چوری زیادہ ہونے یا پھر مجموعی طور پر قابل ٹیکس رقم کا حجم کم ہونے کا ہی امکان نظر آ سکتا ہے۔ وطن عزیز کو اقتصادی شعبے میں مشکلات کا سامنا ایک تلخ حقیقت ہے اس کے ساتھ معیشت کھربوں روپے کے قرضوں تلے دبی ہوئی ہے‘ ہر قرضہ دینے والے کی شرائط تسلیم کرنا حکومتوں کیلئے مجبوری بن چکا ہے‘ ان شرائط پر عمل درآمد کی صورت میں عائد ہونے والے تمام ٹیکس چاہے وہ صنعت کار پر ہوں یا پھر زراعت اور کاروباری سیکٹرز پر ان کا لوڈ عوام ہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے‘ عام صارف پروڈکشن کاسٹ میں اضافے کی ادائیگی بھی کرتا ہے اور ہول سیلر کے ساتھ پرچون فروش پر عائد ٹیکس بھی ادا کرتا ہے اس کے بعد سرمایہ دار اگر ٹیکس بروقت ادا نہ کرے تو نہ صرف اقتصادی شعبے میں مشکلات بڑھتی ہیں بلکہ اسکے ساتھ قرضہ دینے والوں کی شرائط پر عمل درآمد ممکن نہیں رہتا‘ کسی بھی ریاست میں معیشت کو مکمل دستاویزی صورت دینا ہی بہتر حکمت عملی قرار پاتا ہے اس کے ساتھ ضروری ہے کہ ٹیکس وصولی کا نظام زیادہ سے زیادہ عوام دوست بھی ہو تاکہ اس میں ٹکراؤ کی نوبت نہ آئے اس حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز بشمول ٹیکس دہندگان کے نمائندہ افراد کی مشاورت سے حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی۔