ٹھنڈے موسم میں گرما گرم سیاسی ماحول

ملک کے سیاسی منظر نامے میں وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے متعدد رہنماؤں سے ملاقات میں مشاورت کی ہے‘ اس حوالے سے خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ملاقاتوں میں تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات اور پیپلز پارٹی کے گلے شکوؤں پر بھی بات ہوئی ہے‘ اس موقع پر درپیش اہم چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے لائحہ عمل بھی طے کیا گیا ہے‘ دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا ہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے عمران خان نے جو کچھ کہا ہے وہی پارٹی کا فیصلہ ہے‘ بیرسٹر گوہر کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت جوڈیشل کمیشن کا اعلان کرے تو پھر دیکھیں گے۔ تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کا گزشتہ روز انٹرویو میں یہ کہنا ہے کہ یہ بات طے ہے کہ حکومت کے ساتھ نہیں بیٹھنا اور یہ کہ گرینڈ الائنس بنایا جائے گا۔ وطن عزیز کا سیاسی ماحول طویل عرصے سے تناؤ کا شکار ہے اس دوران انتخابات اور حکومتیں تبدیل ہونے کا سلسلہ بھی رہا تاہم مجموعی سیاسی منظر نامے میں کشمکش اور ایک دوسرے کے خلاف بیانات کا سلسلہ جاری ہے‘ اس مجموعی صورتحال میں کون درست اور کون غلط ہے کی بحث میں پڑے بغیر سیاسی گرما گرمی کا گراف معتدل سطح پر لانے اور کم از کم اہم قومی معاملات مل بیٹھ کر سلجھانے کی گنجائش رکھنا ناگزیر ہے۔ وطن عزیز کی سیاسی صورتحال میں ماضی قریب تک گول میز کانفرنسوں کا انعقاد ہوتا رہا‘ اس کے ساتھ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بھی بات چیت کا سلسلہ بھی چلتا رہا ہے سیاسی معاملات سیاسی انداز میں سلجھانے کیلئے مذاکراتی عمل کیلئے دوسری جماعتوں کے سینئر رہنما بھی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلاف معمول کا حصہ ہے‘ ان میں ہر ایک اپنے مؤقف پر بات کر سکتا ہے تاہم ضرورت سیاسی فضاء کو اعتدال میں لانے اور اہم معاملات پر مؤثر حکمت عملی ترتیب دینے کیلئے مشاورت کی ہے جس میں کھلے دل سے ایک دوسرے کا مؤقف سننا ناگزیر ہوتا ہے۔ 
تجاوزات ایک بڑا چیلنج
صوبائی دارالحکومت میں تجاوزات کے خلاف آپریشن سے متعلق تفصیلات جاری ہوتی رہی ہیں اس دوران متعدد مرتبہ لڑائی جھگڑے بھی ہوتے ہیں‘ تجاوزات کے خلاف کاروائیوں کے مستقل نتائج اس سب کے باوجود سوالیہ نشان ہی رہتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب یہ مسئلہ چیلنج کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ثمرآور نتائج کیلئے کبھی کبھار کے آپریشن کی بجائے خود بازاروں کی نمائندہ تنظیموں کو اعتماد میں لے کر مستقل حل تجویز کر دیا جائے بصورت دیگر مسئلہ نہ صرف اپنی جگہ رہے گا بلکہ اس کی شدت مزید بڑھتی چلی جائے گی۔