معیشت‘ سیاست اور عوام

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے پاکستان میں بجلی کے بلوں پر سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی کی تجویز مسترد کردی ہے‘تاہم وفاقی وزیر اویس لغاری کا کہناہے کہ آئی ایم ایف سے بات کر رہے ہیں کہ بجلی 10سے12 روپے فی یونٹ سستی کر سکتے ہیں‘اس ضمن میں مہیا تفصیلات کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ کا کہنا ہے کہ قرض پروگرام کے تحت سیلز ٹیکس میں چھوٹ کی صورت میں ریونیو اہداف تک پہنچنا ممکن نہیں ہوگا‘ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وطن عزیز میں درپیش معاشی منظرنامے میں حکومت کیلئے فیصلے کس قدر مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں‘ اس صورتحال سے متعلق وزیراعظم شہبازشریف بھی گزشتہ روز بعض تلخ حقائق کا کھلے دل سے اعتراف کرچکے ہیں‘شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ملک میں موجودہ ٹیکس نظام کا روبار میں رکاوٹ ہے تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط پر عمل کرنا بھی مجبوری ہے‘ وزیراعظم شرح سود6 فیصدپر لانے کی خواہش کا اظہار کرنے کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ معاشی ترقی کیلئے سب کیساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہیں اوریہ کہ اس ضمن میں ماہرین سے تجاویز بھی درکار ہیں‘ وطن عزیز کو اقتصادی شعبے میں درپیش چیلنج وقت کیساتھ بڑھتے چلے آرہے ہیں‘ یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتیں اپنی مدت اقتدار میں قرضوں کے حجم میں اضافہ ہی کرتی چلی آرہی ہیں‘ صورتحال کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالے جانے کا سلسلہ جاری ہے‘درپیش حالات اور مہیا اعدادوشمار متقاضی ہیں کہ اس بحث میں پڑا ہی نہ جائے کہ اکانومی کو اس مقام پر لانے کا ذمہ دار کون ہے اور کون نہیں‘ اس وقت ضرورت اصلاح احوال کی جانب بڑھنے کی ہے‘ اس بات کے احساس کی ہے کہ ریاست عوام کو ریلیف دینے کیلئے اقدامات کی خواہش کے باوجود ایسا صرف اس لئے نہیں کر پارہی کہ اس کیلئے قرضہ دینے والوں کی اجازت نہیں مل رہی‘ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ اس پورے منظرنامے میں سب سے متاثر ہونے والے غریب شہری کی مشکلات کا احساس کیا جائے‘ یہ غریب شہری ملک کو قرضہ دینے والوں کی شرائط کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے پریشان ہو چکا ہے‘ اس کی کمر مہنگائی نے توڑ دی ہے جبکہ بے روزگاری اس کے لئے علیحدہ سے اذیت ناک صورت اختیار کئے ہوتے ہے‘ بنیادی سہولیات کا فقدان ڈھکی چھپی بات نہیں سروسز کے اداروں کی حالت بھی سب کے سامنے ہے‘ اس سارے منظرنامے میں اصلاح احوال کیلئے اقدامات میں دیگر عوامل کیساتھ ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام بھی ہو اس مقصد کیلئے سینئر قومی قیادت کو اپنا موثر کردار ادا کرنا ہوگا ساتھ ہی سیاسی درجہ حرارت کو حد اعتدال میں لانے کی ضرورت بھی ہے۔