بینک دولت پاکستان کا کہنا ہے کہ وطن عزیز کی معیشت کا انحصار قرضوں پر مزید بڑھ گیا ہے‘ بینک کا کہنا ہے کہ مارچ سے نومبر2024ءکے دوران حکومتی قرضے 5ہزار556 ارب روپے مزید بڑھے ہیں‘ نومبر 2024ءتک حکومت کا قرضہ70 ہزار366 ارب روپے رہا‘ قابل اطمینان ہے کہ مختصر مدت میں غیر ملکی قرضوں میں356 ارب روپے کی کمی ہوئی دریں اثناءاس سارے منظرنامے میں نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق صرف بجلی کمپنیوں کی نادہندگان سے عدم وصولی اور بجلی چوری کے باعث گردشی قرضے میں ماہانہ50ارب اور سالانہ600 ارب روپے کا اضافہ ہوتا جارہا ہے اس حوالے سے رپورٹس میں یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ ڈسکوز نجی اور سرکاری دونوں شعبوں میں پوری ریکوری نہیں کر پا رہیں اور یہ کہ نجی سیکٹر میں اہم شخصیات بھی نادہندگان میں شامل ہیں وطن عزیز کی معیشت مشکلات کے گرداب میں ہے ملک کھربوں روپے کا مقروض ہے صوبے کی سطح پر خیبرپختونخوا بھی بھاری قرضے اٹھا چکا ہے ملک کی معیشت کے اثرات غریب عوام کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں‘ قرض دینے والوں کی شرائط پر ہر نیا ٹیکس اورساتھ ہی پہلے سے لاگو ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کا بوجھ عوام ہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے یوٹیلٹی بل اگر کسی کی بھی ڈکٹیشن پر بنائے جائیں ادائیگی عام صارف ہی کو کرنا پڑتی ہے‘ دوسری جانب جبکہ مہنگائی نے غریب کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے غریب مریضوں کیلئے دوا کا حصول بھی دشوار بنادیا گیا ہے‘ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق بعض ادویات کی قیمتوں میں300 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے ادویہ ساز ادارے ہوں یا کوئی بھی دوسرا سیکٹر‘ حکومت کی جانب سے عائد ہونے والا ہر ٹیکس فوری طور پر عوام کو منتقل کر دیا جاتا ہے‘ اس طرح کسی بھی شعبے میں حکومت کی جانب سے ٹیکس بڑھنے یا پھر نیا ٹیکس لگنے کی صور ت میں اس سیکٹر کے بڑوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ٹیکس عوام کو منتقل کرنے کے ساتھ ان کی مجموعی سیل پر ریکوری کا حجم اور بڑھ جاتا ہے اس سارے منظرنامے میں ضرورت اصلاح احوال کی جانب بڑھنے کی ہے جس کیلئے جاری کوششیں دیگر عوامی کیساتھ سیاسی استحکام کی متقاضی ہیں‘ سیاسی منظرنامے میں استحکام سرمایہ کاروں کو حوصلہ دیتا ہے اور وہ اطمینان سے سرمایہ لگاتا ہے ‘سیاسی استحکام کیلئے مجموعی سیاسی درجہ حرارت کو اعتدال میں لانے اور کم از کم اہم معاملات پر حکمت عملی ترتیب دینے کے لئے ایک دوسرے کا موقف سننا ضروری ہوتا ہے‘ اس سب کے لئے سینئر قیادت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔