سیاسی گرماگرمی اور عالمی رپورٹ

وطن عزیز میں سیاسی تناﺅ اور کشمکش کا سلسلہ ایک بار پھر گرما گرمی کا شکار دکھائی دے رہا ہے اس گرما گرم سیاسی ماحول میں حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان رابطوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور مذاکراتی عمل کے گزشتہ دنوں ہونے والے دور میں تحریک انصاف نے اپنے مطالبات تحریری صورت میں دے دیئے ہیں‘ مذاکراتی عمل کا آغاز عوام کیلئے قابل اطمینان ہے سیاست کے میدان میں جاری گرما گرمی کیساتھ نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ نے رواں مالی سال میں پاکستان کیلئے معاشی شرح نمو کامقررہ ہدف حاصل نہ ہونے کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے‘ اس ضمن میں آئی ایم ایف کی جانب سے جاری ہونے والے ورلڈ اکنامک آﺅٹ لک میںدئےے جانے والے اعدادوشمار قابل غور اور اصلاح احوال کیلئے اقدامات کے متقاضی ہیں‘ برسرزمین صورتحال کے تناظر میں آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے معاشی شرح نمو کے تخمینے پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے 3.2 سے کم کرکے3فیصد کردیا ہے جہاں تک شرح نمو سے متعلق اعدادوشمار کا تعلق ہے تو گزشتہ مالی سال میں یہ شرح2.5 فیصد تھی‘ اس مرتبہ اسے3.2 فیصد کیا‘ جو آئی ایم ایف نے ہدف نہ پانے کی صورت کم کرکے3فیصد کا امکان ظاہر کیا ہے اس سب کیساتھ اگلے مالی سال کیلئے یہ شرح4فیصد رکھنے کا امکان ظاہر کیاگیا ہے خود پاکستان میں رواں مالی سال کیلئے شرح نمو3.6 فیصد تک لانے کا ہدف رکھا گیا ہے وطن عزیز میں سیاسی گرما گرمی کیساتھ ضرورت کم از کم اہم معاملات پر مل بیٹھ کر بات کرنے اور حکمت عملی ترتیب دینے کی گنجائش نکالنے کی ہے اس میں مدنظر یہ بھی رکھنا ہوگا کہ اقتصادی شعبے کی مشکلات سے کسی بھی ریاست میں عام شہری بری طرح متاثر ہوتا ہے اس شہری کو مجموعی منظرنامے میں اٹھائے جانے والے قرضوں کیلئے عائد ہونے والی شرائط کا سارا لوڈ برداشت کرناپڑتا ہے‘ غریب عوام کاریلیف مستحکم معیشت سے جڑا ہوتا ہے جس کیلئے موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
قابل توجہ
یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنیوالی حکومتوں کے اعلانات کو جمع کیا جائے تو پشاور تعمیر وترقی کے حوالے سے دنیا کے بڑے اور اہم شہروں میں داخل ہوتا دکھائی دے گا آنیوالے دنوں کیلئے خوش کن اعلانات بھی اسی طرح کی خوشخبریاں دیتے ہیں جبکہ برسرزمین صورتحال کچھ اور ہے‘ صفائی کا ناقص انتظام اور جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اپنی جگہ صوبے کے دارالحکومت میں طبی فضلہ ٹھکانے لگانے کا محفوظ انتظام نہیں بڑے ہسپتال بڑے دعوے کرتے ضرور ہیں تاہم عملی طورپر فول پروف انتظامات کیلئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے کیا ہی بہتر ہو کہ ترقی کیلئے بڑے بڑے منصوبوں سے پہلے سالڈ ویسٹ کے حوالے سے محفوظ انتظام یقینی بنایا جائے۔