16کھرب روپے کا ٹیکس

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال نے ایک ایسے وقت میں پریشان کن اعدادوشمار پیش کئے ہیں جب ملک میں سیاست کا میدان گرم ہے‘ قومی قیادت ایک دوسرے کے خلاف گرما گرم بیانات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے‘دوسری جانب ملک کی معیشت کھربوں روپے کے قرضوں تلے دبی ہوئی ہے اس کے نتیجے میں ملکی انتظام و انصرام چلانے میں جو دشواریاں ہیں وہ اپنی جگہ‘عام آدمی کیلئے زندگی اجیرن ہو چکی ہے کمر توڑ مہنگائی‘ بے روزگاری اور بنیادی سہولیات کے فقدان نے غریب کیلئے زندگی اجیرن کر رکھی ہے‘ اس ساری صورتحال میں چیئرمین ایف بی آر کا بتانا ہے کہ وطن عزیز میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والے 5فیصد لوگ16کھرب روپے کا ٹیکس چوری کر رہے ہیں‘ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ33 لاکھ ایسے لوگوں میں سے صرف6لاکھ ٹیکس گوشوارے جمع کراتے ہیں‘ اب جہاں تک گوشواروں کی صحت کا سوال ہے تو ذمہ دار دفاتر کے پاس موجود شواہد کے مطابق یا تو یہ لوگ گوشوارے کم کیٹگری میں جمع کرا رہے ہیں یا بالکل نہیں کراتے‘اس ساری صورتحال میں ایف بی آر کی جانب سے ایک لاکھ86 ہزار بہت  مالدار لوگوں کو ٹیکس نوٹس بھجوائے گئے ہیں‘ایف بی آر کا یہ بھی کہنا ہے کہ0.6 ملین لوگ بورڈ کے ریڈار پر آئے ہوئے ہیں‘ اس برسرزمین تلخ حقیقت سے صرف نظر ممکن نہیں کہ ملک کو درپیش معاشی چیلنجوں میں سب سے زیادہ متاثر غریب شہر ی ہی ہورہا ہے‘ اس کیلئے روزمرہ کے اخراجات پورے کرنا دشوار ہے دوسری جانب حکومت قرض دینے والوں کی شرائط یا کسی اور وجوہات کی بناء پر کوئی بھی ٹیکس عائد کرتی ہے یا پھر مجموعی پیداواری لاگت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے تو وہ فوراً صارف کو منتقل ہو جاتا ہے‘ٹیکس صنعت پر لگے‘ہول سیل پر ہو یا پرچون پر‘ ادا صارف ہی نے کرنا ہوتا ہے اس طرح بوجھ صرف عوام ہی کو برداشت کرنا ہوتا ہے اس کے برعکس حکومت کی جانب سے مراعات و سہولیات ملنے اور پیداواری لاگت میں کوئی کمی آنے پر فائدہ مخصوص طبقے کو ہی ملتا ہے اب یہ مخصوص طبقہ اپنے حصے کا ٹیکس بھی ادا نہ کرے تو حکومتی مشینری کیلئے مشکلات کیساتھ قرض دینے والوں کی شرائط پرعملدرآمد کا کام بھی دشوار ہو جاتا ہے‘کیا ہی بہتر ہو کہ ایف بی آر‘قومی قیادت اور مختلف سٹیک ہولڈرز کے نمائندوں کی مشاورت سے بہتر انداز میں محاصل کی وصولی ممکن بنائے اور عوام دوست پالیسیاں متعارف کرائے۔