خیبرپختونخوا حکومت کی اپنی قائم کردہ ٹاسک فورس کی رپورٹ نے صحت کے شعبے میں اصلاحات اور عملی نتائج کے درمیان فاصلوں کا پول کھول دیا ہے ضم اضلاع میں علاج کی سہولیات سے متعلق رپورٹ میں انتہائی تشویشناک صورتحال کی عکاسی کی گئی ہے طبی عملے کی کمی‘ مشینری ناپید ہونے اور دیگر سہولیات نہ ملنے پر دور دراز علاقوں سے مریضوں کو بڑے شہروں تک لانے میں جو دشواریاں ہیں ان کو تلخ حقائق کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے مسائل کے حل کی جانب بڑھنا ناگزیر ہے اس کے برعکس ہمارے ہاں سرکاری سطح پر آرام دہ کمروں میں ملٹی میڈیا پر بریفنگ میں یہ بتانے کی روایت چلی آرہی ہے حکومتی اقدامات کے نتیجے میں سب درست ہوگیا ہے اور یہ کہ عوام کو اس طرح سے سہولیات مل گئی ہیں کہ جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا‘ اسی بریفنگ پر اکتفا کی روش حکومتی اقدامات کے برسرزمین ثمر آور نتائج کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے‘ ٹاسک فورس کی رپورٹ آن سپاٹ صورتحال کی عکاسی ہے‘ قابل توجہ ہے کہ ضم اضلاع میں 235 بنیادی طبی مراکز میں سے34غیر فعال ہیں اس کے نتیجے میں مریضوں کو ابتدائی علاج و تشخیص کیلئے بھی طویل مسافت طے کرناپڑتی ہے‘ طویل سفر کے بعد جن علاج گاہوں میں پہنچا جاتا ہے وہاں کی صورتحال کو بھی کسی طورنظرانداز کرنے کی گنجائش نہیں ہے‘صوبے کے دارالحکومت میں بڑی سرکاری علاج گاہوں میں ضرورت کے مقابلے میں وسائل و سہولیات کی کمی کا اندازہ ہسپتالوں کے داخلی راستوں پر وہیل چیئر اور ٹرالی کے حصول میں مشکلات سے ہی ہو جاتا ہے‘ کسی سرکاری بریفنگ میں اس بات پر شاید ہی کبھی بات ہوئی ہو کہ جب پاؤں میں فریکچر کے مریض کو ہسپتال کے گیٹ پر کہہ دیا جائے کہ وہیل چیئر تو فارغ نہیں آپ یہ طویل راہداری آرام آرام سے چل کر خود ہی طے کرلیں پھر پرچی کے حصول‘ڈاکٹر سے معائنے اور ایکسرے کیلئے طویل انتظار کے مراحل طے کرنے کیلئے اس مریض کو تیمار دار اٹھائے پھرتے ہوں تو وہ حکومتی اعلانات‘اصلاحات اور اس سیکٹر کیلئے بھاری فنڈز جاری ہونے سے کس طرح مطمئن ہو سکتے ہیں‘ یہ ساری صورتحال صرف ہیلتھ سیکٹر تک محدود نہیں مختلف شعبوں میں اصلاحات کیلئے اعلانات اور اقدامات کا عوام کیلئے ثمر آور ہونا عملی نتائج سے جڑا ہوتا ہے‘ یہ نتائج اسی صورت ممکن ہیں جب اوورسائٹ کا محفوظ انتظام موجود ہو خیبرپختونخوا میں اس حوالے سے ضروری ہے کہ ذمہ دار حکام کو دفاتر سے نکل کر موقع پر جانے اور عوام کو سروسز کی فراہمی کے پورے عمل کی مانیٹرنگ کا پابند بنایا جائے۔