یہ سب ناکافی ہے

خیبر پختونخوا کا سیاسی ماحول دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ ہی گرما گرمی کا شکار ہے‘ سیاسی رابطے‘ ملاقاتیں اور گرما گرم بیانات معمول کا حصہ بن چکے ہیں‘ اس سب کے ساتھ عوام کو درپیش مسائل کا گراف بھی بلندی کی جانب ہی بڑھ رہا ہے‘ حکومت کی جانب سے اصلاح احوال کے لئے اقدامات اٹھائے بھی جائیں تو ان پر عمل درآمد کی رفتار سست روی کا شکار ہی رہتی ہے‘ ایسے میں ذمہ دار دفاتر کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر مشتمل جو رپورٹس پیش ہوتی ہیں وہ خود تو نہایت قابل اطمینان ہی ہوتی ہیں تاہم ان پر عمل درآمد کے برسرزمین نتائج ناکافی ہی ہوتے ہیں‘ صوبے کی سطح پر مارکیٹ کنٹرول کے لئے اقدامات کبھی کبھار کے چھاپوں تک ہی محدود ہیں جبکہ گرانی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے‘ میونسپل سروسز کی حالت پریشان کن صورت اختیار کئے ہوئے ہے‘ بیماریاں پھیلنے پر علاج کے لئے اقدامات تو اٹھائے جاتے ہیں‘ بیماریوں کی وجوہات پر توجہ مرکوز کرنا ضروری نہیں سمجھا جا رہا‘ پینے کا پانی بیماریاں بانٹ رہا ہے‘ شہروں میں صفائی کی صورتحال میں مکھیوں و مچھروں کی بہتات ہے جو ڈینگی بخار سمیت دیگر بیماریوں کا ذریعہ بن رہی ہے‘ سرکاری علاج گاہوں میں مریض سروسز کے حصول کے لئے ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں‘ غریب شہری پورا دن بعض ہسپتالوں میں معائنے کے لئے قطاروں میں لگے رہنے کے باوجود شام کو مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ قرض اٹھا کر پرائیویٹ کلینک میں علاج کروائیں‘ ٹیسٹ ان مریضوں کو ویسے بھی اکثر کیسوں میں پرائیویٹ ہی کروانا پڑتے ہیں۔ صوبے کے دارالحکومت سمیت تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ٹریفک کی صورتحال پریشان کن صورت اختیار کئے ہوئے ہے‘ پشاور میں تو مریض کو ٹریفک کے سیلاب سے نکال کر ہسپتالوں کو پہنچانا بھی مشکل ہو چکا ہے‘ تجاوزات کی بھرمار کے خلاف اب ایسا دکھائی دینے لگا ہے کہ متعلقہ انتظامی دفاتر بے بس ہو چکے ہیں‘ صوبائی صدر مقام کی سڑکیں اپنی گنجائش سے کئی گنا زیادہ ٹریفک کا بوجھ اب برداشت نہیں کر سکتیں۔ تعلیم کے شعبے میں جتنے بھی اقدامات اٹھائے جائیں یا فنڈز مختص ہوں پریشانی غریب شہری کے لئے بڑھتی چلی جا رہی ہے وہ معیار کی خاطر اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کی فیس ادا کرنے پر مجبور ہے‘ درپیش منظر نامے کا تقاضا ہے کہ صوبے کی حکومت اپنے اقدامات اور اعلانات پر عمل درآمد کے لئے نگرانی کا محفوظ نظام وضع کرے۔