انتظار کس بات کا ہے؟



وطن عزیز کی سیاست میں تناﺅ اور کشمکش کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے‘ اس تناﺅ اور ایک دوسرے کے خلاف الفاظ کی گولہ باری کے دوران ہی عام انتخابات بھی ہوئے ‘حکومتیں بھی ایک سے زائد مرتبہ تبدیل ہوئیں حکومت والے اپوزیشن بنچوں پر آئے‘ حزب اختلاف والے حکومتی نشستوں پر گئے اسی طرح صوبوں میں بھی سیاسی ماحول گرماگرم ہی چلا آرہا ہے‘ جمہوری ادوار میں اس طرح حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات معمول کا حصہ ہیں‘ تاہم دوسری جانب وطن عزیز کو درپیش چیلنج اور عام آدمی کے مسائل متقاضی ہیں کہ سیاسی درجہ حرارت کو حد اعتدال میں رکھا جائے اور قومی نوعیت کے حامل امور کو مل بیٹھ کر یکسو کیا جائے‘ درپیش سیاسی منظرنامے میں قومی اسمبلی کے اندر اپوزیشن جماعت خیبرپختونخوا میں حکمران پارٹی ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں اپوزیشن پارٹی پنجاب میں حکومت کر رہی ہے‘ سندھ اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومتیں ہیں ایسے میں مرکز اور صوبوں کی سطح پر قومی قیادت کم از کم برسرزمین صورتحال کے تناظر میں مستحکم حکمت عملی ترتیب دینے اور خاص کر عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے لائحہ عمل مرتب کرنے کی غرض سے مل بیٹھ کر فیصلے کرے تو ان کے نتائج ثمر آور ثابت ہونگے ‘اس وقت ملک کو درپیش متعدد چیلنج خصوصاً معیشت اور توانائی کے شعبوں میں مشکلات طویل المدتی منصوبوں کے اجراءکی متقاضی بھی ہیں ان کیلئے پلاننگ کو اس طرح سے محفوظ بنانے کی ضرورت ہے کہ یہ حکومتی تبدیلیوں سے متاثر نہ ہونے پائے اس سب کے لئے ضروری کم از کم اہم معاملات پر مکالمہ ہے جس کے لئے کردار سینئر سیاسی قیادت کو ادا کرنا ہوگا۔
 پیسہ خرچ کئے بغیر ریلیف
 خیبرپختونخوا میں ہیلتھ سیکٹر کیلئے بڑے بڑے منصوبے قابل اطمینان ہیں صوبے میں صحت کارڈ کا اجراءایک میگاپراجیکٹ ہے جس کیلئے اخراجات کا حجم بڑھایا جاتا رہا ہے تاکہ عوام کو سہولت حاصل ہو‘ یہ سب اپنی جگہ حکومت کے احساس و ادراک کا عکاس ہے‘ اس سب کیساتھ ضرورت ہے کہ زمینی حقائق کی روشنی میں سرکاری علاج گاہوں میں صرف چیک اینڈ بیلنس اور مریضوں کی بہتر انداز میں رہنمائی کے انتظام کے ساتھ بغیر کوئی بجٹ ریلیز کئے عوام کیلئے ریلیف یقینی بنایا جا سکتا ہے‘ اس کے لئے شکایات کے ازالے کے لئے انتظامات بھی ضروری ہیں‘ ضروری یہ بھی ہے کہ طبی عملے کو بڑھتے رش کے تناظر میں درپیش مشکلات کا احساس بھی کیا جائے یہ سب ایک موثر حکمت عملی کا متقاضی ٹاسک ہے۔