ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم شہبازشریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دستور میں 27ویں ترمیم لانے کا فیصلہ کیا ہے‘ اس حوالے سے اتفاق رائے وزیراعظم اور چیئرمین پیپلز پارٹی کے درمیان ملاقات میں ہوا‘ رپورٹس میں یہ بھی بتایا جارہا ہے آئین میں ترمیم کیلئے مولانا فضل الرحمن اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیا جائیگا‘27ویں آئینی ترمیم کے مندرجات سے متعلق ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں صوبوں کے حقوق سے متعلق خدشات کو مدنظر رکھا جائیگا اس اہم سیاسی رابطے میں جمہوریت اور پارلیمنٹ کی مضبوطی کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا‘ وطن عزیز کا سیاسی منظرنامہ ایک طویل عرصے سے انتہائی پریشان کن صورتحال پیش کر رہا ہے‘ گوکہ سیاسی اختلافات پارلیمانی جمہوریت کا حصہ ہیں تاہم ان اختلافات کا حد اعتدال میں رہنا اور اہم قومی امور بات چیت کے ذریعے یکسو کرنا بھی ناگزیر ہے‘ دستور میں 26ویں ترمیم ہو یا 27ویں پارلیمنٹ کو قانون سازی قاعدے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنے کا حق حاصل ہے تاہم ضرورت اس کے ساتھ ملک کو مختلف شعبوں میں درپیش چیلنجوں سے نمٹنے اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے بھی اتفاق رائے سے موثر حکمت عملی ترتیب دینے کی ہے اس وقت ملک کی معیشت مشکلات کے گرداب میں ہے اندرونی اور بیرونی قرضوں اور ان پر سود کا حجم تشویشناک ہے اس منظرنامے میں غریب عوام بری طرح متاثر ہے‘ اسی طرح توانائی بحران بھی ہے جس میں بھاری بل ادا کرنے والے صارفین لوڈشیڈنگ کی اذیت بھی برداشت کرتے ہیں‘ اس سب کیساتھ انہیں سروسز کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے بنیادی شہری سہولیات کا فقدان اپنی جگہ ہے‘بے روزگاری کے ہاتھوں پڑھے لکھے اور ہنر مند نوجوان مایوسی کا شکار ہیں‘ سیاسی اختلافات اپنی جگہ مقررہ فورمز پر رکھنے کے ساتھ ضروری ہے کہ درپیش صورتحال کا تجزیہ کیا جائے‘برسرزمین تلخ حقائق سے چشم پوشی اورسب اچھا ہے کی رپورٹس پر انحصار کی روش ترک کی جائے‘مرکز اور صوبوں کو مل بیٹھ کر تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے اس طرح کی حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی کہ ایک جانب معیشت مستحکم ہو اور دوسری طرف عوام کو ریلیف مل سکے‘معاشی استحکام کے حوالے سے مدنظر رکھنا ہوگا کہ اس کیلئے دیگر عوامل کیساتھ سیاسی استحکام بھی ضروری ہے‘ اس سب کیلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی نوعیت کے اہم معاملات یکسو کرنے کیلئے ایک دوسرے کا موقف سن کر پائیدار حکمت عملی ترتیب دی جائے۔