ابھی بہت سارے فیصلے با قی ہیں 

خیبر پختونخوا میں 100 سے زائد ہسپتال صحت انصاف کارڈ کے پینل سے خارج کر دیئے گئے ہیں‘ کارڈ پینل سے نکالے جانے والوں میں پشاور کے 15 پرائیویٹ ہسپتال بھی شامل ہیں‘ان تمام ہسپتالوں سے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ ان میں مطلوبہ سہولیات پوری نہیں کی گئیں‘جبکہ ساتھ ہی یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ سابقہ ادوار حکومت میں صوبے کے اندر مختلف پرائیویٹ ہسپتالوں کو صحت کارڈ پینل میں شامل کیا گیا تھا جن کی جانچ پڑتال موجودہ حکومت نے ایک کمیٹی کے ذریعے کر لی ہے‘ صحت کارڈ جیسے اہم منصوبے میں غیر معیاری سروسز اور مطلوبہ سہولیات نہ رکھنے والے ہسپتالوں کا پینل میں شامل ہونا اس اہم منصوبے کو بے ثمر بنانے کے مترادف ہے تاہم بات صرف یہاں ختم نہیں ہونی چاہئے ضرورت اس منصوبے کے تحت خدمات کی فراہمی کے پورے نظام کیلئے کڑی نگرانی کے انتظام کی ہے اس انتظام میں ذمہ دار حکام کا موقع پر جانا اور عوامی شکایات سے آگہی حاصل کرناضروری ہے صرف عوام کو یہ کہ دینا کہ وہ کسی مسئلے کی صورت میں شکایت درج کرائیں کافی نہیں حکومت کی جانب سے اصلاح احوال کے اس عمل کو صرف صحت کارڈ تک محدود نہیں رکھنا چاہئے اس کے دائرے کو مختلف سیکٹرز تک توسیع دینا ضروری ہے تاکہ عوام کو سروسز کی فراہمی بہتر معیار کے ساتھ یقینی بنائی جاسکے‘ مدنظر رکھنا ہوگا کہ ہیلتھ سیکٹر ہو یا کوئی بھی شعبہ‘ اس میں ضروری ہے کہ حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے اربوں روپے کے فنڈز کا بہتر اور شفاف استعمال ہر صورت یقینی بنایا جائے اس کیلئے ابھی بہت سارے فیصلے باقی ہیں۔ 
صرف دروازے کافی نہیں 
پشاور موٹروے سے آنے والوں کیلئے خوبصورت دروازے کی تعمیر کا عندیہ دیا جا رہا ہے کسی بھی شہر میں داخل ہونے والوں کیلئے شہر سے متعلق پہلا تاثر اہمیت کا حامل ضرور ہے پشاور میں داخلے کا راستہ صرف موٹر وے نہیں اطراف کی دیگر سڑکیں بھی ہیں کہ جن سے صوبائی دارالحکومت میں داخل ہوا جاتا ہے پشاور جس سمت سے آیا جائے صفائی کی ناقص صورتحال‘تجاوزات‘ تہہ بازاری‘سڑکوں کی حالت اور بے ہنگم ٹریفک سے شہر سے متعلق پہلا تاثر مل جاتا ہے ایک راستے پر دروازے کی تعمیر پر تو خرچہ بھی ہوگا داخلی راستوں پر سڑکوں کی حالت بہتر بنانے‘صفائی‘تجاوزات کے خاتمے اور ٹریفک کنٹرول کیلئے فنڈز کی ضرورت ہی نہیں اس کیلئے صرف نگرانی چاہئے۔