تلخ حقائق سے چشم پوشی؟

نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے تحت رواں مالی سال کی پہلی قسط صوبوں کو ادا کر دی گئی ہے‘ خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق وفاق سے جاری ہونے والی رقم کا حجم15کھرب65 ارب سے زیادہ ہے ان میں سے خیبرپختونخوا کو2.57 کھرب سے زائد کی ادائیگی ہوئی ہے‘ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ وطن عزیز کو معیشت کے شعبے میں درپیش مشکلات کے نتیجے میں صوبوں کی سطح پر بھی امور بری طرح متاثر ہوئے ہیں خیبرپختونخوا کا کیس انفرادی نوعیت کا بھی ہے اس صوبے کی معیشت مشکلات کے گرداب میں بھی ہے جبکہ اسی صوبے کے پن بجلی منافع اور بعض دوسری ادائیگیوں کی مد میں اربوں روپے وفاق کے ذمے طویل عرصے سے واجب الادا چلے آرہے ہیں اس ضمن میں صوبے کی سطح پر کسی دور حکومت میں کم اور کسی میں زیادہ کے تناسب سے کوششیں اور رابطے ہوئے بھی ہیں تاہم مکمل ادائیگی کیلئے کوئی انتظام ابھی تک نہیں ہوپایا اور اقساط کی صورت رقم ملتی رہتی ہے‘ خیبرپختونخواکو امن وامان کی صورتحال کے باعث بھی چیلنجوں کا سامنا رہا ہے ماضی قریب میں اس صورتحال کے باعث پوری پوری صنعتی بستیوں کو تالے لگے ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ بے روزگار بھی ہوئے خیبرپختونخوا کے کیس میں صوبے کا حصہ بننے والے نئے اضلاع کے اندر تعمیر وترقی اور عوام کو سہولیات کی فراہمی کیلئے بھی مالی وسائل کی ضرورت ہے یہ سب حقائق اپنی جگہ ہیں جبکہ چشم پوشی کی گنجائش اس حقیقت میں بھی نہیں کہ صوبے کے مختلف شعبوں میں دستیاب وسائل کا درست استعمال یقینی بنانے کیلئے درکار کوششیں نہیں کی گئیں آج خیبرپختونخوا میں صوبے کی سطح پر عوام کو بنیادی شہری سہولیات کے فقدان کا سامنا ہے صوبے میں میونسپل سروسز کامعیار سوالیہ نشان ہے ربن پلاننگ نہ ہونے کے باعث شہروں کا بے ہنگم پھیلاؤ جاری ہے جبکہ تجاوزات اور تہہ بازاری کیساتھ بعض دیگر عوامل کے نتیجے میں ٹریفک کا مسئلہ صوبائی دارالحکومت کے ساتھ صوبے کے متعدد شہروں میں سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے‘ صحت کے سیکٹر میں تمام بڑے بڑے منصوبوں اور فنڈز کے اجراء کے باوجود لوگ اکثر سرکاری علاج گاہوں میں سروسز کے معیار سے مطمئن نہیں ہو پاتے ایسے میں نہایت مالی مشکلات کے باوجود انہوں نجی اداروں میں علاج کیلئے جاناپڑتا ہے تعلیمی اداروں کی بھی یہی حالت ہے کہ لوگ دو کمروں کے پرائیویٹ  سکول تک میں بچوں کا داخلہ کراتے ہیں گڈ گورننس کا تقاضہ ہے کہ حکومت ترجیحات کے زمرے میں پہلے مرحلے پر مہیا وسائل‘ انفراسٹرکچر اور افرادی قوت کا بہتر استعمال یقینی بنائے جس کیلئے کڑی نگرانی کا انتظام ضروری ہے۔