خیبرپختونخوا میں یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتوں میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ صوبے کے دارالحکومت کی حالت سنوارنے کیلئے بے شمار اعلانات کو فائلوں کی زینت بنایا جاتا ہے‘ ہر حکومت صوبے کے پایہئ تخت کی تعمیر و ترقی‘ خوبصورتی‘ صفائی ستھرائی‘ تجاوزات کے خاتمے‘ ٹریفک روانی‘ پینے کے صاف پانی اور دیگر میونسپل سروسز سے متعلق حوصلہ افزاء اعلانات کرتی ہے‘ان اعلانات کی روشنی میں کمیٹیاں بھی بنتی ہیں‘ اجلاس بھی ہوتے ہیں اور ائرکنڈیشنڈ کمروں میں ملٹی میڈیا پر بریفنگ بھی دی جاتی ہے‘ جس میں پشاور دنیا کا سب سے ترقی یافتہ اور جدید سہولیات سے آراستہ شہر دکھائی دینے لگتا ہے‘ دوسری جانب برسرزمین ثمرآور نتائج کہیں خال ہی دکھائی دیتے ہیں‘ پشاور کی منصوبہ بندی کے ذمہ دار دفاتر میں اگر فیصلہ سازی کے مراحل اس طرح سے مکمل کئے جائیں کہ شہر کے جغرافیے کو صرف ملٹی میڈیا پر ہی دیکھا جائے اور خود فیصلہ سازی کے ذمہ دار موقع پر کبھی جائیں ہی نہیں تو پلاننگ کس طرح سے محفوظ اور ضروریات کے مطابق ہو سکتی ہے‘ صوبائی دارالحکومت کی تعمیر و ترقی اور عظمت رفتہ کی بحالی جڑی ہوئی ہے اس بات سے کہ منصوبہ بندی کے مراحل میں برسرزمین حقائق کو مدنظر رکھا جائے‘ پشاور جو ماضی میں پھولوں کا شہر کہلاتاتھا محدود انفراسٹرکچر اور شہری سہولیات رکھتا تھا‘ آبادی میں اضافے‘ بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کے رجحان اور لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی نے اس شہر کے ناکافی انفراسٹرکچر پر دباؤ ڈال دیا‘ شہر کی سڑکیں جو محدود ٹریفک کیلئے تھیں یہاں کئی گنا زیادہ ٹریفک نے صورتحال کو بگاڑ دیا‘ شہر کی آبادی کسی منصوبہ بندی کے بغیر چاروں اطراف بے ہنگم طور پر بڑھنے لگی‘بڑھتی آبادی کیلئے اربن پلاننگ کاکوئی انتظام نہ تھا جس کے باعث تمام تعمیرات کسی قاعدے قانون کے بغیر ہونے لگیں‘بلڈنگ کوڈ سرکاری دفاتر کی الماریوں میں بند ہوگیا‘نکاسی آب کا انتظام بڑھتی اور اطراف میں پھیلتی آبادی کیلئے قطعاً نہ تھا‘یہی حالت دیگر سروسز کی بھی تھی اس سارے منظرنامے میں اصلاح احوال کی باتیں یقینا اس ضمن میں احساس و ادراک کی عکاس ضرور ہیں تاہم عملی نتائج کیلئے تلخ حقائق کو مدنظر رکھنا ناگزیر ہے‘ ضرورت اربن پلاننگ کیلئے ماضی قریب میں سیٹ اپ تھا اس کو بہتر بنا کر دوبارہ فعال کیا جائے فزیکل پلاننگ اینڈ ہاؤسنگ کا محکمہ جس طرح کام کرتا تھا اس کو آگے بڑھایا جائے بلدیاتی اداروں کو وسائل دے کر فعال بنایا جائے اس سب کیساتھ پہلے مرحلے میں موجودہ وسائل اور مین پاور کیلئے کڑی نگرانی کا بندوبست ضروری ہے۔