وطن عزیز معیشت سمیت مختلف شعبوں میں شدید مشکلات کا شکار ہے‘ اقتصادی شعبے کی حالت کا اثر براہ راست غریب عوام پر ہی پڑ رہا ہے‘ درپیش منظرنامے میں ملک کا عام شہری کمر توڑ مہنگائی کے ہاتھوں اذیت کا شکار ہے‘ ایک طویل عرصے سے یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتیں ملک کے ذمے قرضوں کے حجم میں اضافہ کرتی چلی آرہی ہیں‘کھربوں روپے کی مقروض معیشت میں اگر صرف کسی قرضے کی قسط میں تھوڑی سی تاخیر ہو جائے تو حالات پریشان کن صورت اختیار کر جاتے ہیں اسی طرح توانائی کے سیکٹر میں بحران کا اثر بھی ان صارفین کیلئے پریشان کن ہوتا ہے کہ جو اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر بھاری یوٹیلٹی بل ادا کرتے ہیں اور پھر موسموں کی شدت میں بجلی اور گیس کی طویل لوڈشیڈنگ بھی برداشت کرتے ہیں‘ ملک کی اقتصادی حالت اور بدانتظامی میں چیک اینڈ بیلنس کے فقدان میں بھی یہی عام شہری خدمات کے حصول میں بھی پریشانیوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں دوسری جانب ضرورت اس احساس کی ہے کہ معاشی منظرنامے میں اصلاح احوال کیلئے چند عارضی نوعیت کے اقدامات کی بجائے اپنی مربوط حکمت عملی کی جانب بڑھا جائے کہ جس میں قرضوں سے انحصار ختم ہو اور ملکی اقتصادیات اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکے‘ یہ درپیش تشویشناک صورتحال میں کوئی چھوٹا موٹا کام نہیں‘برسوں کا بگاڑ ہے کہ جس کو سنوارنے کیلئے ایسی جامع حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی کہ جس میں نہ صرف فوری طور پر عوام کو ریلیف ملے بلکہ معیشت مستحکم ہو سکے اس میں صنعت تجارت اور زراعت جیسے شعبوں کے لئے لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا پیداواری لاگت کم کرنے کے لئے سستی بجلی کی پیداوار بڑھانا ہوگی جس کے ساتھ زراعت کیلئے آبی ذخائر بھی کارآمد ہوں گے‘ آبی ذخائر کی تعمیر نہ صرف فنڈز کی متقاضی ہے بلکہ اس کے لئے سیاسی قیادت کی باہمی مشاورت بھی ناگزیر ہے‘مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے آبادی کا بڑا حصہ زراعت پر ہی انحصار کرتا ہے‘نہری نظام کو مثالی قرار دیا جاتا ہے اس کے باوجود زرعی اجناس کی درآمد کا بل کیوں بڑھتا چلا جارہاہے‘ پیش نظر یہ بھی رکھنا ہوگا کہ اقتصادی شعبے کے استحکام کے لئے سیاسی استحکام بھی ناگزیر ہے سیاسی استحکام میں سیاسی گرماگرمی کو حد اعتدال میں رکھنے اور اہم امور پر مشاورت کیلئے ضروری ہے کہ مل بیٹھ کر بات کی جائے جس کیلئے مکالمے کا اہتمام ناگزیر ہے اس مکالمے کیلئے سینئر قیادت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔