ثمر آور نتائج کا انتظار کب تک؟

وفاقی حکومت کی جانب سے معیشت کے درست ٹریک پر آنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ 14 ماہ میں معیشت سنبھلنے پر انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ حیران ہے، وزیرخزانہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف بہت جلد معاشی روڈ میپ پیش کریں گے اور یہ کہ اصلاح احوال کے اس عمل میں صوبوں کی جانب سے بھی تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے‘ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ دوٹوک الفاظ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ٹیکس سب نے دنیا ہوگا محمد اورنگزیب کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمیں صرف چارٹر آف اکانومی نہیں بلکہ چارٹر آف انوائرمنٹ بھی کرناہوگا‘ حکومت کی جانب سے اقتصادی شعبے میں اصلاح احوال کیلئے کوششوں کے ساتھ اعداد وشمار بھی پیش کئے جا رہے ہیں جو قابل اطمینان ہیں تجارتی خسارے میں کمی ہو یا پھر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ‘ گرانی کے گراف میں کمی ہو یا پھر روپے کی قدر میں اضافہ‘سب قابل اطمینان ہے تاہم عوام کیلئے یہ سب صرف اس وقت معنی رکھتا ہے جب برسرزمین ریلیف کا احساس ہو‘یہ درست ہے کہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق گرانی 38 سے 7 فیصد پر آئی ہے‘ درست یہ بھی ہے کہ شرح سود 22 سے 15 فیصد ہو گئی ہے‘ایسے میں عام آدمی کا سوال اپنی جگہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں اس وقت مہنگائی پہلے سے بڑھ گئی ہے‘ اس صورت میں وہ سرکاری اعداد وشمار اور خوش کن اعلانات سے کس طرح ریلیف پا سکتا ہے؟ وطن عزیز میں حکومت کی جانب سے کوئی ٹیکس عائد ہو یا پیداواری لاگت میں کوئی اضافہ ہو تو اس کے اثرات عام صارف تک فی الفور پہنچ جاتے ہیں اور مہنگائی کا لوڈ اس پر فوراً بڑھ جاتا ہے‘دوسری جانب حکومت کسی بھی سیکٹر میں کوئی مراعات دے یا پھر کسی بھی شعبے میں کوئی ریلیف دیا جائے تو اس کے اثرات صرف سرکاری رپورٹس اور جاری اعداد وشمار تک محدود رہتے ہیں‘عام صارف کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ پاتا بلکہ سرمایہ دار کے اکاؤنٹس کا حجم مزید بڑھ جاتا ہے‘ وفاق کی جانب سے اکانومی سیکٹر میں جتنے بھی اچھے اعداد وشمار آتے رہیں اور لوگوں کو جس قدر بھی ریلیف دیئے جانے کا کہا جاتا رہے جب تک صوبوں میں مارکیٹ کنٹرول کا موثر نظام کام نہیں کرتا‘ عوام کے لئے سب کچھ بے معنی ہے‘اعداد وشمار جتنی بہتری دکھاتے رہیں عوام کے لئے مہنگائی کا گراف قطعاً کم نہیں ہو رہا‘مہنگائی کے ساتھ انسانی صحت اور زندگی کیلئے انتہائی خطرناک ملاوٹ کا سلسلہ جاری ہے ملاوٹ کا دائرہ کھانے پینے کی اشیاء سے پھیلتے ہوئے‘ ادویات تک پہنچ چکا ہے اور متعلقہ ادارے آئے دن مارکیٹ سے جعلی اور دو نمبر ادویات برآمد ہونے کی تفصیل جاری کرتے ہیں‘ حکومت کے بہتر ہوتے اقتصادی اشاریوں کے اثرات عوام تک اس صورت پہنچ سکتے ہیں جب سرکاری مشینری پوری طرح فعال ہو اور مارکیٹ کنٹرول کیلئے موثر انتظامات کئے جائیں یہ سب اس صورت ممکن ہے جب برسرزمین حالات کے تناظر میں موثر حکمت عملی کے تحت گراس روٹ لیول پر مارکیٹ کنٹرول یقینی بنایا جائے۔