اخراجات میں کمی یا پھر ٹیکس

 انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے حکومت کو دو تجاویز دے کر خود ایک کا انتخاب کرنے کا کہا ہے‘ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک تجویز یہ ہے کہ محصولات میں 189 ارب روپے کے خسارے کو پورا کرنے کیلئے منی بجٹ پیش کیا جائے‘ دوسری صورت میں پھر حکومت کو اپنے لامحدود اخراجات کم کرنے کاکہاگیا ہے‘ قرضے کے اجراء کیساتھ آئی ایم ایف کی جانب سے عائد ہونے والی شرائط پر عملدرآمد سے متعلق ذمہ دار دفاتر کے اعدادوشمار اس طرح کے ہیں کہ خود پاکستانی حکام آئی ایم ایف کو بتا رہے ہیں کہ محصولات کے حوالے سے تاجر دوست سکیم سے متعلق توقعات پوری نہیں ہو سکی ہیں‘ اس سکیم کے تحت جمع ہونے والی اب تک کی رقم کا حجم صرف 1.7 ملین روپے ہے اس حوالے سے سکیم کے آغاز پر صرف پہلی سہ ماہی میں محصولات کا ہدف10 ارب روپے رکھا گیا تھا تاہم اس کیساتھ اس سکیم کو کامیاب بھی قرار دیا جارہا ہے اور وہ اس حوالے سے کہ پرچون اور تھوک فروشوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا کام ہوچکا ہے‘ اس تلخ حقیقت سے چشم پوشی ممکن نہیں کہ قرضہ حاصل کرنے کیلئے قرض دینے والوں کی شرائط پرعملدرآمد مجبوری ہی ہوتی ہے ان شرائط کا بوجھ بظاہر سرمایہ کارپر بھی ڈالا جائے تو برداشت عام صارف ہی کو کرنا پڑتا ہے‘ صنعت‘ زراعت‘ کاروبار‘ تھوک‘ پرچون جس سیکٹر پر بھی ٹیکس لگے ادا صارف ہی  نے کرنا ہوتا ہے‘ اسی طرح پیداواری لاگت میں کوئی اضافہ ہو یا پھر فارورڈنگ کے اخراجات بڑھ جائیں‘برداشت عوام نے ہی کرنا ہوتے ہیں‘ اس وقت تک سامنے آنے والی تجاویز میں سے ایک کا بوجھ عوام نے اٹھانا ہے جبکہ دوسری شرط جو کہ اخراجات سے متعلق ہے‘ کا لوڈ حکومت نے اپنی بہتر حکمت عملی ترتیب دے کر برداشت کرنا ہے‘ حکومتی حکمت عملی میں غیر ضروری اخراجات پر قابو پانا ہے‘تاہم کسی ادارے کو ختم کرکے ورکرز کو بے روزگار کرنا ایک بار پھر بوجھ عوام ہی پر ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے‘ غیر ضروری ادارے اور اسامیاں ختم کرنا اپنی جگہ‘ تاہم ان اداروں سے وابستہ کارکنوں کو تحفظ دینا اپنی جگہ ضروری ہے‘ معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کیساتھ ضروری یہ بھی ہے کہ قرضوں پر سے انحصار ہی ختم ہو جہاں تک بات غیر ضروری اخراجات میں کمی کی ہے تو اس کیلئے دوچار اقدامات ناکافی ہیں بہتر حل یہی ہے کہ مرکز اور صوبے ایک مشترکہ اور ٹھوس حکمت عملی ترتیب دیں تاکہ اخراجات کا والیوم کم کیا جا سکے اور عوام پر بوجھ کم سے کم ہو۔