ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ساتھ اسلام آباد میں جاری مذاکرات کے دوران تادم تحریر متعدد نکات پر اتفاق ہوگیا ہے‘ اس ضمن میں مہیا تفصیلات کے چیدہ چیدہ نکات کے مطابق محصولات کا ہدف پورا نہ ہونے پر جس منی بجٹ کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا وہ اب پیش نہیں ہوگا اس میزانیہ میں محصولات کی کمی ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر اور کچھ نئے ٹیکس عائد کرکے پوری کرنے کا عندیہ دیا جارہا تھا‘آئی ایم ایف کیساتھ مذاکرات میں پٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس نہ لگانے پر بھی اتفاق ہوا ہے‘ اس سب کیساتھ فیصلہ یہ بھی ہوا ہے کہ زراعت کے سیکٹر پر عائد ہونیوالے زرعی ٹیکس کی وصولی اگلے سال سے شروع ہوگی‘ بات چیت میں طے پانے والے امور میں یہ بھی شامل ہے کہ ٹیکس کا ہدف جو کہ12ہزار970 ارب روپے ہے اسی طرح برقرار رہے گا‘ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے ٹیکس محصولات پر اطمینان کا اظہار کر دیا ہے‘ اس ملاقات میں جو گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت میں ہوئی مقامی قرضوں پر بھی بات ہوئی‘ایف بی آر کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی ایم ایف حکام نے ان قرضوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا‘ قابل اطمینان ہے کہ منی بجٹ اور پٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس عائد رہنے کا امکان ختم ہوتا جارہا ہے‘ اب اس پورے اقتصادی منظرنامے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کیلئے اقدامات تجویز کئے جائیں ضروری یہ بھی ہے کہ یہ اقدامات صرف کاغذوں کی حد تک محدود نہ رہیں‘ بلکہ ان کے برسرزمین عملی نتائج بھی یقینی بنائے جائیں‘ مارکیٹ کنٹرول کاموثر انتظام ناگزیر ہے‘ جبکہ بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے موثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے‘ اسی طرح بے روزگاری کے خاتمے اور توانائی بحران سے نمٹنے کیلئے بھی پلاننگ کی ضرورت کا احساس کرنا ہوگا۔
باکمال لوگ لاجواب سروس
باکمال لوگ لاجواب پرواز سے باکمال لوگ لاجواب سروس والی پاکستان کی قومی فضائی کمپنی کی نجکاری سے متعلق رپورٹس تواتر کیساتھ آرہی ہیں تازہ ترین صورتحال میں تادم تحریر بتایا جارہاہے کہ ایک نئے پلان پر کام شروع ہو چکا ہے اور اب پی آئی اے کو قطر یا ابوظہبی گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کے تحت فروخت کیا جائیگا‘ وطن عزیز کی قابل فخر اور ماضی قریب میں منافع بخش فضائی کمپنی کی نجکاری سے متعلق بحث میں پڑے بغیر ذمہ دار اداروں کیلئے ضرورت یہ بھی ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں کہ کس طرح منافع بخش کمپنی اس حال تک پہنچی ہے؟ ریفارمز کے امکا ن کو بھی دیکھنا ضروری ہے جبکہ مزید اداروں کو اس طرح خسارے سے بچانے کیلئے سوچ بھی ضروری ہے‘ضروری یہ بھی ہے کہ پی آئی کے ملازمین کو تحفظ دیا جائے۔